غریب اونچی ذات کیلئے ریزرویشن … ایک اور ’جملہ‘

   

رام پنیانی
ذات پات کا نظام ہندوستانی نظام مساوات کی طرف پیشرفت میں بڑی رکاوٹ رہا ہے۔ آزادی اور اس کے بعد ہندوستانی دستور وجود پانے پر سماجی طور پر پسماندہ طبقات کیلئے گنجائشیں رکھی گئیں کہ ایس سی (درجِ فہرست طبقات) اور ایس ٹی (درجِ فہرست قبائل) کو تحفظات دیئے جاسکیں۔ کئی سال بعد 1990ء میں وی پی سنگھ نے جب اپنے اقتدار کیلئے چودھری دیوی لال کا خطرہ محسوس کیا تو منڈل کمیشن کی رپورٹ پر عمل آوری کردی جس نے ریزرویشن کا 27% حصہ دیگر پسماندہ طبقات کو دے دیا۔ یہ ایس ٹی اور ایس سی کیلئے پہلے سے مختص کوٹہ کے علاوہ رہا۔ حالیہ عرصے میں خاصی آبادی والے طبقات جیسے جاٹ، مراٹھا، پٹیل اور دیگر کی طرف سے اپنے لئے ریزرویشن کے مطالبات ہوئے ہیں۔ ریاستی حکومتیں ایسے مطالبات کے تعلق سے مخمصے میں رہی ہیں، کیونکہ ماضی قریب میں زبردست ایجی ٹیشن دیکھنے میں آئے ہیں۔
اس پس منظر میں بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے 10% ریزرویشن معاشی طور پر پسماندہ اونچی ذاتوں کیلئے متعارف کرائے ہیں۔ مرکزی کابینہ نے اسے منظوری دی اور پارلیمنٹ نے اس پر عمل آوری کیلئے درکار دستوری ترمیم منظور کی۔ ان تبدیلیوں کے درمیان ایک تنظیم ’یوتھ فار ایکوالیٹی‘ نے اس کوٹہ کے جواز کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔ وہ ریزرویشن کے نظریہ کے ہی مخالف ہیں جس کی بنیاد یہ ہے کہ صرف میرٹ ہی جابس کیلئے کسوٹی ہونا چاہئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی ایک پارٹی کی حیثیت سے تحفظات کے نظریہ کی مخالفت کرنے والی نظریاتی لڑائی میں ہمیشہ پیش پیش رہی تھی۔ ماضی میں ریزرویشن کے خیال کی مخالفت کرتے ہوئے دائیں بازو کے لوگوں کی قیادت میں طویل ایجی ٹیشن اور تحریکات دیکھنے میں آئے تھے۔ 1980ء کے دہے میں احمدآباد کے مخالف تحفظات فسادات دلتوں کیلئے کوٹہ کے خلاف تھے۔ اس میں دلتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر تشدد ہوا۔ اسی طرح 1985ء کے بعد نوکریوں میں ترقی کیلئے ریزرویشن کے اُصول کے خلاف تشدد کا ایک اور سلسلہ برپا گیا۔
منڈل کمیشن پر عمل آوری کے معاملے میں اس کی مخالفت کرنے والی واحد پارٹی شیوسینا رہی۔ دیگر بڑی پارٹی جو نظریاتی اعتبار سے تحفظات کی مخالف ہے اور میرٹ کو کسوٹی بنانے کی بات کرتی ہے وہ بی جے پی رہی۔ انتخابی مفاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اُس نے منڈل کمیشن کی مخالفت کھل کر نہیں کی۔ اس کی جگہ وہ اپنی ’کامنڈل‘ سیاست، رام مندر سیاست کو مضبوط کرتی رہی، جس نے سماج کو مذہبی خطوط پر منتشر کیا جس کے نتیجے میں بڑا تشدد برپا ہوا۔ ’یوتھ فار ایکوالیٹی‘ کسی کے بھی لئے اور کوئی بھی نوعیت کے ریزرویشن کی مسلسل مخالفت کرتی آئی ہے۔ اب وہ سپریم کورٹ تک پہنچ گئی ہے۔
ابھی تک تحفظات کی بالائی حد جملہ 50% تک مقرر کی گئی ہے، اب 10% اضافی کوٹہ کے ساتھ یہ حد 60% ہوجائے گی۔ دیکھنا ہے کہ آیا یہ قانونی طور پر پائیدار یا قابل مدافعت ہے؟ معاشی طور پر پسماندہ کی تشریح تمام تر منطق کو جھٹلاتی ہے، جو کچھ تجویز کیا گیا، وہ یہ ہے کہ سالانہ 8 لاکھ روپئے سے کم آمدنی والے تمام افراد، 1,000 مربع فیٹ سے کم والا گھرانہ اور 5 ایکڑ سے کمتر اراضی رکھنے والے اس زمرہ میں شامل کئے جائیں گے۔ اگر ہم ان حدود میں عبوری تخمینے دیکھیں تو زائد از 90% ہندوستانی آبادی اس 10% ریزرویشن کیلئے اہل ہوجائے گی، اس طرح عملاً اثباتی اقدام کا تصور ہی ختم ہوجاتا ہے اور یقینا اونچی ذاتوں کے غریبوں کو اس سے کچھ فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ اس حکومت کی تحفظات والی پہل سے جو نکات اُبھرتے ہیں وہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس کا ارادہ غریب اونچی ذات والوں کی کسی بھی طرح مدد کرنے کا نہیں ہے۔ ابھی تک سوسائٹی میں تحفظات سے فائدہ اٹھانے والوں کو ہتک سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ یہ ایس سی؍ ایس ٹی؍ او بی سی ریزرویشن کی متبادل راہ ہے کہ پرائیویٹ کالجس کا جال وجود میں آیا، جہاں میرٹ کو نظرانداز کرنے میں پیسے کی طاقت بڑا عنصر ہے۔ میرٹ یا قابلیت بمقابلہ پیسہ کا تضاد گزشتہ کئی دہوں کے دوران اچھی طرح بے نقاب ہوا ہے۔ کوئی محفوظ زمرہ سے آئے تو اسے کمتر معیار کا قرار دیا گیا، اور خانگی کالجوں نے ڈونیشن کو داخلہ کی شرط بنایا اور اس طرح پیسے کی طاقت تعلیم کے شعبے میں بڑا عنصر رہی ہے۔ لہٰذا، جہاں ریزرویشن کے خیال کی مخالفت ہوتی رہی، تو پھر یہ اقدام کیوں، جو سماجی۔ معاشی فرق کی خلیج کو پاٹنے میں بہرحال کسی مصرف کا نہیں رہے گا۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ جہاں یہ اقدام کیا جارہا ہے، وہیں ہزارہا نوکریاں مخلوعہ ہیں؛ جن پر بھرتی نہیں ہورہی ہے۔ زیادہ تر شعبوں میں مستقل نوعیت کا کام عارضی ورکرز کے ساتھ کنٹراکٹ پر بیرون ادارہ کرایا جارہا ہے۔
پالیسی سازوں کو پتہ ہے کہ اس اقدام سے غریبوں کو فائدہ ہونے والا نہیں کیونکہ نئی نوکریاں پیدا نہیں کی جارہی ہیں۔ چاہے سرکاری شعبہ ہو کہ خانگی شعبہ، جابس میں کافی جمود ہے اور یہی چیز نوجوانوں میں مایوسی کا موجب بن رہی ہے۔ جب جابس پر بھرتی نہ ہو یا نئے جابس کی گنجائش نہ نکالی جائے تو کوٹہ کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟ مسٹر مودی 2014ء میں دو کروڑ نوکریاں ہر سال پیدا کرنے کے وعدے کے ساتھ اقتدار پر آئے۔ نئے جابس پیدا کرنے کے بجائے وہ نوٹ بندی کے سبب غیرمنظم شعبے میں جابس کی کٹوتی کا موجب بن گئے۔ ’میک اِن انڈیا‘ جسے نوکریاں پیدا ہونا چاہئے تھا فلاپ اسکیم ثابت ہوئی۔ بڑھتی بیروزگاری کی وجہ سے نہ صرف ہمیں ہماری صنعتی پالیسیوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ توجہ بھی دینا ہے کہ ہم اثباتی اقدام پر کس طرح عمل درآمد کریں۔ عوام سماجی ناانصافی اور مذہب کی بنیاد پر امتیاز کے سبب بھی ستائے جارہے ہیں۔
رنگناتھ مشرا کمیشن اور سچر کمیٹی کی رپورٹس ہمیں مسلم اقلیتوں کے خلاف زبردست امتیاز سے واقف کراتی ہیں۔ ہم کس طرح اس صورتحال میں انصاف والے سماج کی طرف پیش رفت کریں گے؟ کوتاہ نظر ’جملہ‘ والے قائدین انصاف نہیں کرسکتے، نا ہی جابس دے سکتے ہیں۔ ہمیں سب کو ساتھ لے کر چلنے والی حکومت درکار ہے جس کا مجموعی ایجنڈا ہماری سوسائٹی کی خرابیوں کو دور کرنا ہو۔
سماج کے معاشی طور پر پسماندہ طبقہ کیلئے یہ نام نہاد ریزرویشن مودی۔ بی جے پی کی طرف سے ایک اور ’جملہ‘ پیش کرنے کی کوشش ہے، جس میں غریب تر اونچی ذات پر مثبت اثرات کے تعلق سے کچھ بھی ٹھوس پن نہیں ہے۔ ریزرویشن میں معاشی کسوٹی میں ایک اور سطح کو متعارف کرانا غربت کو ختم کرنے میں ناکامی کا اعتراف ہے۔ یہ ہمارے دستور میں دی گئی تحفظات کی بنیادی اساس کو بے اثر کرنے کی کوشش بھی ہے ، اور وہ سماجی ناانصافی اور سماجی ترتیب ہے۔ ریزرویشن کوئی انسداد غربت پروگرام نہیں ہوتا، جسے بہرحال انجام دینے کی ضرورت رہتی ہے۔ پھر وہی بات سامنے آتی ہے کہ یہ کام ایسی حکومت سے ممکن نہیں جسے اپنی پالیسی بنانے میں بڑے کارپوریٹ گھرانوں کا مفاد ملحوظ رکھنے کی فکر زیادہ رہتی ہے۔
ram.puniyani@gmail.com