غزوہ احد میں حضرت حمزہ بن عبد المطلبؓ کے مقابل مشرکین میں سے کوئی بھی ٹھہرنہ سکا

   

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا کا تاریخ اسلام اجلاس۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی کا خطاب

حیدرآباد ۔10؍فبروری( پریس نوٹ) دروان غزوہ احد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عم محترم حضرت حمزہ بن عبد المطلبؓ میدان جنگ میں اپنی سیف کے جوہر دکھا رہے تھے۔وہ اس قدر شدت اور دلیری کے ساتھ مصروف جدال تھے کہ جس طرف نکلتے دشمنوں کا صفایا ہوتا جا رہا تھا۔ارطاۃ بن شرحبیل اور سباع بن عبد العزیٰ آپ ہی کے ہاتھ جہنم رسید ہوئے۔میدان جنگ میںکوئی حضرت حمزہؓ کے مقابلہ میں ٹھہرنے کی جسارت کر نہیں سکتا تھا۔غزوہ احد میں جبیر بن مطعم نے اپنے غلام وحشی کو اس قرارداد پر آمادہ کیا تھا کہ اگر وہ حضرت حمزہؓ سے بدلہ لے تو آزاد کر دیا جائے گا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جنگ بدر میں حضرت حمزہؓ کے ہاتھوں جہنم رسید ہونے والوں میں جبیر کا چچا بھی شامل تھا۔جب حضرت حمزہؓ سباع بن عبد العزیٰ سے نپٹ رہے تھے اور اسے ختم کر چکے اس وقت وحشی ایک پتھر کی آڑ میں بیٹھا حضرت حمزہؓ کو تاک رہا تھا۔ جب حضرت حمزہؓؤ سامنے سے گزرے تو وحشی نے تاک کر پیچھے سے نیزہ پھینک مارا جو حضرت حمزہ بن عبد المطلبؓ کے بدن مبارک کے آر پار ہو گیا۔ حضرت حمزہؓ نے پلٹ کر تعاقب بھی کیا مگر زخم شدید تھا اور اس کے اثر سے آپ جاں بحق ہو گئے۔ اس سانحہ عظمی کا رسول اللہؐ کو بے حد رنج و ملال ہوا۔ سید الشہداء حضرت حمزہ بن عبد المطلبؓ کی شہادت نے مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تاہم مسلمانوں کے جذبہ ایمان ،ذوق جہاد اور شوق شہادت نے انھیںدشمنوں پر بھاری رکھا۔ مسلمان پورے عزم و استقامت، شجاعت و دلیری، پامردی و جانبازی کے ساتھ دشمنوں کے مقابلہ میں ڈٹے ہوئے داد شجاعت دے رہے تھے۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح ۹ بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میں ان حقائق کا اظہار کیا۔وہ اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل (انڈیا) آئی ہرک کے زیر اہتمام منعقدہ ’۱۳۴۱‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں واقعات غزوہ احد اور ان کے اثرات پر اہل علم حضرات اور سامعین کرام کی کثیر تعداد سے شرف تخاطب حاصل کر رہے تھے۔ بعدہٗ 11.30بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت صحابی رسولؐ اللہ حضرت سنان بن ابی سنان ؓؓ کے احوال شریف پر مبنی حقائق بیان کئے۔ قرا ء ت کلام پاک، حمد باری تعالیٰ،نعت شہنشاہ کونین ؐ سے اجلاس کا آغاز ہوا۔ڈاکٹرسید محمد حمید الدین شرفی نے سلسلہ بیان جاری رکھتے ہوے ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت بتایا کہ صحابی رسول اللہ حضرت حضرت سنان بن ابی سنانؓ کا شمار ان خوش مقدر صحابہ میں ہوتا ہے جنھوں نے دولت ایمان اپنے والد کے ساتھ پائی۔ انھیں ہجرت کا شرف بھی اپنے والد کے ساتھ حاصل ہوا۔ اگر چہ حضرت سنانؓ کا زمانہ اسلام پردئہ خفا میں ہے تاہم انھوں نے قبل ہجرت یہ سعادت پائی۔ ہجرت کے بعد خدمت دین میں سرگرم رہے بدر و احد و خندق کے بشمول تمام غزوات میں شرکت کا شرف حاصل کیا۔ ان مواقع پر انھوں نے بے پناہ قوت و طاقت اور مہارت حرب کے دلنواز مظاہرے کئے اپنے تمام رفقا کے لئے باعت حوصلہ ثابت ہوے۔ حضرت سنانؓ بن ابی سنان نے بیعت رضوان میں رسول اللہؐ کے دست اقدس پر بیعت کا شرف پاتے وقت جب حضور اقدسؐ نے ان سے دریافت کیا کہ ’’کس چیز پر بیعت کرتے ہو؟‘‘ تو عرض کی کہ آپ کے قلب اطہر میں جو ہے اس پر آپ سے بیعت کرتا ہوں۔ ایک روایت کے بموجب آپ نے سب سے پہلے بیعت کا شرف پایا۔ حضرت سنانؓ نے طویل عمر پائی وفات شریف 32ھ میں ہوئی۔