غزوہ خندق میں نا مساعد حالات کے باوجود مسلمانوں نے کامل استقامت کا مظاہرہ کیا

   

اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل انڈیا کا تاریخ اسلام اجلاس۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی کا خطاب
حیدرآباد ۔6؍اکٹوبر( پریس نوٹ) غزوہ خندق میں دشمنوں کے درمیان آپسی تعاون اور ان کے متحدہ محاذ نے انھیں مسلمانوں پر چاروں طرف سے حملہ آور ہونے کے موقف میں لا دیا تھا۔ اس کے باوصف رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تمام صحابہ کرام نہایت ثابت قدمی اور حوصلہ مندی سے ان کا سامنا کر رہے تھے۔ مسلمان دس راتوں تک ان نا مساعد حالات کے باوجود غیر متزلزل اور مشرکین کے مقابلہ میں استقامت کے ساتھ جمے رہے۔حضرت نعیم بن مسعودؓ نے ایسے نازک وقت اپنی حاضر دماغی، حکمت و تدبیر کا بھر پور مظاہرہ کیا اور مسلمانوں کو راحت پہنچانے کے لئے امکانی کوششیں کیں۔ وہ قریش، بنو غطفان اور بنو قریظہ کے پاس گئے اور ان سے ایسی گفتگو کی کہ قریش اور بنو قریظہ ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھنے لگے۔ چنانچہ جب قریش نے بنو قریظہ کے پاس کہلا بھیجا کہ فلاں دن وہ سب مل کر مسلمانوں پر یکبارگی حملہ کریں گے تب بنو قریظہ نے یہ شرط رکھی کہ وہ اس وقت تک جنگ نہیں گریں گے جب تک کہ قریش اپنے کچھ آدمی بنو قریظہ کے پاس گروی نہ رکھ دیں۔قریش نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔ اس طرح قریش اور بنو قریظہ میں تفرقہ اور انتشار پیدا ہو گیا۔ڈاکٹر سید محمد حمید الدین شرفی ڈائریکٹر آئی ہرک نے آج صبح 9 بجے ’’ایوان تاج العرفاء حمیدآباد‘‘ واقع شرفی چمن ،سبزی منڈی قدیم میں ان حقائق کا اظہار کیا۔وہ اسلامک ہسٹری ریسرچ کونسل (انڈیا) آئی ہرک کے زیر اہتمام منعقدہ ’1375‘ویں تاریخ اسلام اجلاس کے پہلے سیشن میں سیرت طیبہ کے تسلسل میں واقعات غزوہ خندق پر اہل علم حضرات اور سامعین کرام کی کثیر تعداد سے شرف تخاطب حاصل کر رہے تھے۔ بعدہٗ 11-30 بجے دن جامع مسجد محبوب شاہی مالاکنٹہ روڈ روبرو معظم جاہی مارکٹ میں منعقدہ دوسرے سیشن میں ایک مہاجر ایک انصاری سلسلہ کے تحت رسول اللہؐ کے ابن عم اور صحابی حضرت عبید اللہ ابن عباسؓؓ کے احوال شریف پر مبنی حقائق بیان کرتے ہوئے بتایا کہ حضرت عبید اللہؓ خاندان رسالتؐ کے رکن رکین تھے حضرت عباسؓ بن عبد المطلب آپ کے والد گرامی تھے ۔ حضرت لبابہ کبریٰ ام الفضلؓ بنت حارث والدہ اور امام المفسرین حضرت عبد اللہؓ بن عباس بھائی تھے۔ حضرت عبید اللہؓ کی کنیت ابو محمد تھی انھوں نے رسول اللہؐ کے جمال پاک کے بار بار دیدار، ارشادات اقدس کی سماعت اور صحبت مبارک سے فیضیاب ہونے کا شرف پایا۔ کئی احادیث شریف ازبر تھیں۔ حضرت عبید اللہؓ بڑے متقی، پرہیزگار، اعلی صفات کے حامل بزرگ اور نہایت سخی تھے ان کی سخاوت ضرب المثل تھی۔ ایک سفر میں انہوں نے اپنے غلام کے ساتھ ایک اعرابی کے مکان میں قیا م کیا۔اس کے پاس کچھ نہ تھا صرف ایک بکری تھی جس کے دودھ پر اس اعرابی کی لڑکی کا گزارہ تھا لیکن اس نے حضرت عبید اللہؓ کی مہمانداری کے لئے بکری کو ذبح کر کے اس کا گوشت بھون کر پیش کر دیا۔ حضرت عبید اللہؓ نے جاتے وقت اسے پانچ سو اشرفیاں عنایت فرمادیں اور یہ ارشاد فرمایا کہ ہم نے اپنے مال کا ایک حصہ دیا ہے جب کہ اعرابی نے بکری کی صورت میں اپنا کل اثاثہ تواضع میں خرچ دیا تھا۔ اس سے حضرت عبید اللہؓ کی داد و دہش کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ بہ مشکل پانچ درہم کی بکری کے عوض پانچ سو اشرفیاں عطا فرما دیں۔ حضرت عبید اللہؓ جب اپنے بڑے بھائی حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ کے ساتھ مدینہ منورہ جایا کرتے تو تمام اہل مدینہ اعتراف کرتے کہ عبد اللہؓ علم میں اور عبید اللہؓ سخاوت میں بے مثال ہیں۔ حضرت عبید اللہؓ عہد خلیفہ چہارم امیر المومنین سیدنا علی ابن ابی طالبؓ میں یمن کے حاکم تھے اور انھیں 36ھ اور 37ھ میں امیر حج بنایا گیا تھا چنانچہ مسلسل 2 سال آپ نے لوگوں کو حج کرایا۔ حضرت عبید اللہؓ پہلے پہل روزانہ ایک اونٹ کی قربانی کرتے تھے بعد میں ہر دن دو اونٹ ذبح کرنے لگے تھے مخلوق خدا کو کھانا کھلانا اور راحت رسانی کے لئے اپنا مال خرچ کرنا انہیں بڑا مرغوب تھا۔ حضرت عبید اللہؓ اعلیٰ اخلاق کے حامل اور ان تمام خوبیوں سے متصف تھے جو قیامت تک ایک مومن کامل کی پہچان ہیں۔ بڑے عبادت گزار، نیک دل، ہمدرد، بامروت، شجیع، حوصلہ مند، سخی اور صبر و شکر کا پیکر تھے۔ عشق الٰہی اور محبت رسولؐ سے ہمیشہ سرشار، اطاعت حق تعالیٰ اور اتباع رسالت پناہیؐ کا کامل نمونہ تھے۔ حضرت عبید اللہؓ نے طویل عمر پائی سنہ وفات 58ھ مشہور ہے۔ مدینہ منورہ میں مدفون ہیں۔