غیر مذہب قبول کرنا

   

سوال: کوئی غیرقوم کا شخص اسلام قبول کرتا ہے تو کیا مسلمان شخص غیرقوم کو قبول کرسکتا ہے ؟
جواب : اسلام دین حق ہے ، اسلام کے سوا کوئی مذہب حق نہیں اس لئے اگر کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرتا ہے تو حق کی راہ کو پاتا ہے اور کوئی مسلمان غیرمذہب کو قبول کرتا ہے تو وہ جادۂ حق سے ہٹ کر باطل کے طریقہ کو قبول کیا وہ مرتد ہوگا اور دوزخ اس کا دائمی ٹھکانہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْـرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَهُوَ فِى الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ (سورہ آل عمران) جو شخص اسلام کے سواء کوئی دوسرا دین اختیار کرے تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ فقط واللہ أعلم
مولانا قاری محمد مبشر احمد رضوی
جیسے مرے سرکار ﷺ ہیں ویسا نہیں کوئی
حضور پرنور‘ احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح کمالِ سیرت میں تمام اولین و آخرین سے ممتاز اور افضل واعلیٰ بنایا۔ اِسی طرح جمالِ سیرت میں بھی بے مثل و بے مثال پیدا فرمایا۔ حضراتِ صحابۂ کرام جو دن رات سفر و حضر میں جمالِ نبوت کے تجلیات دیکھتے رہے۔ اُنھوںنے محبوب خدا ﷺ کے جمالِ بے مثال کے فضل و کمال کی جو مصوری کی ہے جس کو کسی مداح نے یوں بیا ن کیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کا مثل پیدا فرمایا ہی نہیں ۔ صحابی رسول حضرت سیدنا حسان بن ثابت ؓ نے اپنے قصیدۂ ہمزیہ میں شانِ بے مثالی کو اِس طرح بیان فرمایا کہ : ’’یا رسول اللہ آپ سے زیادہ حسن و جمال والا میری آنکھ نے کبھی کسی کو دیکھا ہی نہیںاور آپ سے زیادہ کمال والا کسی عورت نے پیداکیا ہی نہیں ۔ یا رسول اللہ ﷺ آپؐ ہر عیب و نقص سے پاک پیدا کئے گئے ہیں۔ گویا آپؐ ایسے ہی پیدا کئے گئے ہیں جیسے حسین و جمیل پیدا ہونا چاہتے تھے‘‘۔ حضرت علامہ امام بوصیری ؒنے قصیدہ بُردہ شریف میں یوں ارشاد فرمایا کہ حضور انور ﷺ اپنی خوبیوں میں ایسے یکتا ہیں کہ جس میں اُن کا کوئی شریک نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے آپؐ میں جو حسن کا جوہر عطا فرمایا ہے وہ قابلِ تقسیم ہی نہیں ہے۔ تمام امت کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ تناسبِ اعضاء اور حسن جمال میں نبیٔ آخر الزماں ﷺ بے مثل و بے مثال ہے۔حضرتِ سیدنا ابوہریرہ ؓ کا بیان ہے کہ حضور اقدس ﷺ کے جسم اقدس کا رنگ گورا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ مقدس بدن پر چاندی سے ڈھال کر بنایا گیا ہے۔ (شمائلِ ترمذی) حضرت انس ؓ سے روایت ہے آپؐ کا جسمِ مبارک نہایت نرم و نازک تھا۔ اور میں نے آپؐ کے جسمِ مبارک کی خوشبو سے زیادہ کوئی خوشبو نہیں دیکھی۔ (بخاری شریف ) حضرتِ کعب بن مالک ؓ نے فرمایا کہ جب حضور اکرم ﷺ خوش ہوتے تھے تو آپؐ کا چہراۂ انور اِس طرح چمک اٹھتا تھا کہ گویا چاند چمکتا ہے اور ہم لوگ اُسی کیفیت سے آپؐ کی شادمانی اور مسرت کو پہچان لیتے تھے۔ (بخاری شریف) آپؐ کے رخِ انور پر پسینہ کے قطرات موتیوں کی طرح ڈھلکتے تھے اور اِس میں مشک وعنبر سے بڑھ کر خوشبو رہتی تھی۔ حضرتِ انس ؓ کی والدہ محترمہ ایک چمڑے کا بستر حضور اکر م ﷺ کے لئے بچھا دیتی تھیں اور آپؐ اُس پر دوپہر میںقیلولہ فرماتے تھے تو آپؐ کے جسم اطہر کے پسینہ کو وہ ایک شیشی میں جمع فرمالیتی تھیں۔ پھر اُس کو اپنی خوشبو میں ملا لیا کرتی تھیں۔ چنا نچہ حضرت انس ؓ نے وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد میرے بدن اور کفن میں و ہی خوشبو لگائی جائے جس میں آقا و مولا ﷺ کے جسم اطہر کا پسینہ شامل ہو (بخاری شریف) آپ ﷺ کے خصائص میں لکھا ہے کہ آپؐ کے جسم اقدس کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا اسلئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو اپنے نور سے پیدا فرمایا ہے۔