فائنل میں شکست ہوتی تو شاید دوبارہ کرکٹ نہ کھیلتا:بٹلر

   

لارڈز۔ 23 جولائی (سیاست ڈاٹ کام )کرکٹ ورلڈکپ چمپیئن بننے والی انگلش ٹیم کے وکٹ کیپر اور جارحانہ بیٹسمین جوز بٹلر نے کہا ہے کہ اگر ان کی ٹیم فائنل میں ہار جاتی تو ان کے لیے دوبارہ کرکٹ کھیلنا مشکل ہوجاتا۔ جوز بٹلر نے ورلڈکپ ٹرافی اٹھانے کے بعد پہلی مرتبہ اس شکست کے خوف سے بھی پردہ اٹھادیا جو ان کے چہرے پر میچ کے اختتامی لمحات میں دکھائی دے رہا تھا۔کرک انفو کی رپورٹ کے مطابق انگلش وکٹ کیپر نے کہا کہ انہوں نے اس فائنل سے قبل 8 مرتبہ اپنی ٹیموں کی جانب سے فائنل مقابلوں میں حصہ لیا جس میں 7 مرتبہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔انہوں نے مزید کہا کہ سمرسیٹ کی جانب سے کھیلتے ہوئے انگلینڈ کے ڈومیسٹک ٹورنامنٹس کے ساتھ ساتھ انگلینڈ کی جانب سے 2013 میں چمپیئنز ٹرافی کا فائنل اور 2016 میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹوئنٹی 20 فائنل ایسے میچز ہیں جس میں ان کی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جوز بٹلر نے کہا کہ اپنے سامنے حریف ٹیم کو ٹرافی اٹھاتے ہوئے دیکھنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور یہ درد میں ایک مرتبہ پھر برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ اگر ہم ہارگئے تو نہیں جانتا کہ دوبارہ کرکٹ کیسے کھیلوں گا، یہ زندگی میں ایک مرتبہ ملنے والا موقع تھا، ایک ورلڈکپ کا فائنل وہ بھی لارڈز میں تھا۔یہ ایک قسمت کی طرح محسوس ہوا، میں سوچ رہا تھا کہ اگر ایسا (فائنل میں فتح) نہیں ہوتا، تو میرے پاس کافی عرصے تک دوبارہ کرکٹ بیٹ اٹھانے کی خود اعتمادی نہیں ہوتی۔ خیال رہے کہ ورلڈکپ فائنل میں انگلینڈ کی جانب سے میچ کے ہر مرحلے میں جوز بٹلر نے اہم کردارادا کیا، انہوں نے ہدف کے تعاقب میں 59 رنز بنائے اور بین اسٹوکس کے ساتھ 110 رنز کی بہترین شراکت داری بھی قائم کی۔سوپر اوور میں بین اسٹوکس کے ہمراہ بیٹنگ کی اور پھر سوپر اوور میں ہی جب نیوزی لینڈ کو جیت کے لیے آخری گیند پر 2 رنز درکار تھے تو تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیوی بیٹسمین مارٹن گپٹل کو رن آؤٹ کرکے میچ برابر کردیا۔ واضح رہے کہ میچ اور سوپر اوور برابر ہونے کی وجہ سے انگلینڈ کو میچ میں زیادہ باؤنڈریز لگانے پر ورلڈکپ چمپیئن قرار دیا گیا۔ جوز بٹلر نے آخری لمحات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ گراؤنڈ سے باہر بیٹھ کر میچ دیکھنے والوں پر دباؤ ہوتا ہے، تاہم ایسا دباؤ کھلاڑیوں پر نہیں ہوتا، وہ ایسی صورتحال کے لیے ہی تیار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ مارٹن گپٹل بہت قریب ہے، تو میں اور بھی زیادہ پریشان ہوتا، لیکن جب مجھے یہ علم ہوگیا کہ میرے پاس وقت موجود ہے تو میں نے اس میں سکون کا مظاہرہ کیا اور انہیں آؤٹ کیا۔