فرقہ واریت، ہندوستان میں ایک اور وائرس

   

راج دیپ سردیسائی
ہمارا ملک صرف کووڈ ۔ 19 کی وباء سے ہی متاثر نہیں ہے بلکہ نفرت سے بھی شدید متاثر ہے۔ خاص طور پر عوام کے درمیان نفرت پھیلانے میں سوشل میڈیا اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ہم اس معاملہ میں سوشل میڈیا کو سوپر اسپریڈر کہہ سکتے ہیں۔ حال ہی میں ممتاز سماجی جہد کار اور بندھوا مزدوری کے خاتمہ کے لئے کوشش کرنے والے سوامی اگنی ویش کا انتقال ہوا۔ ان جیسی شخصیت کے گذر جانے پر بہت سارے لوگوں کو تکلیف ہوئی لیکن ایک سابق آئی پی ایس آفیسر این ناگیشور راؤ نے ٹوئٹ کیا ’’اچھا ہوا چھٹکارا ملا، آپ بھگوا لباس میں ہندووں کے مخالف تھے، آپ نے ہندووں کا بہت بڑا نقصان کیا، مجھے شرم آتی ہے کہ آپ تلگو برہمن پیدا ہوئے تھے، مجھے یمراج سے شکایت ہے کہ انہوں نے اتنا لمبا انتظار کیوں کیا؟‘‘ ناگیشور راو کے ان ٹوئٹس پر دوسرے بہت سارے ٹوئٹر صارفین نے سخت احتجاج کیا اور اسے پولیس وردی کی توہین کے ساتھ ساتھ حکومت کو شرمندہ کرنے کا عمل قرار دیا ٹوئٹر صارفین کے زبردست احتجاج کے بعد ٹوئٹر نے اس سابق پولیس آفیسر کے ٹوئٹ کو قابل اعتراض قرار دیتے ہوئے ٹوئٹر سے ہٹا دیا۔ جہاں تک این ناگیشور راؤ کا سوال ہے وہ کوئی معمولی پولیس آفیسر نہیں۔ 2018 میں انہیں سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (CBI) کا عبوری ڈائرکٹر مقرر کیاگیا اور جولائی میں وظیفہ حسن خدمات پر سبکدوشی سے پہلے ناگیشور راؤ نے فائر سرویسیز اور ہوم گارڈ کے ڈائرکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ایک ایسے عہدہ دار کو جو کئی اعلیٰ اور باوقار عہدوں پر فائز رہ چکا ہے اس طرح کے کینہ پرور تبصرے نہیں کرنا چاہئے لیکن انہوں نے سوامی اگنی ویش کی موت پر جس انداز میں بغض و عناد کا مظاہرہ کرتے ہوئے جو ریمارکس کئے وہ اس بات کی علامت ہے کہ ان لوگوں نے دستور کے تئیں وفاداری کا جو حلف لیا تھا اس پر عمل پیرا ہونے سے گریز کیا اور وہی لوگ اپنے خاکی یونیفام پر نفرت کے نظریات کا ایک اور لباس زیب تن کئے ہوئے ہیں۔ کسی کی موت پر خوشی کا اظہار کرنا یا کسی کی موت کی تمنا کرنا ٹھیک نہیں ہے انتہائی بری بات ہے، لیکن این ناگیشور راؤ نے سوامی اگنی ویش کی موت پر اظہار کردہ اپنے خیالات کا دفاع کیا ہے حالانکہ ان کے خیالات نفرت سے بھرے تھے۔ این ناگیشور راؤ کے نفرت انگیز ٹوئٹ نے ہمیں اسی طرح کے ایک اور ٹوئٹ کی یاد دلادی۔ جس وقت صحافی اور سماجی جہد کار گوری لنکیش کو سال 2017 میں گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا اس وقت سورت کے ایک تاجر نکھل دادیچ نے نفرت انگیز ٹوئٹ کچھ اس طرح کیا تھا۔ ’’ایک کتیا نے ایک کتے کی موت پائی اور اب تمام کتے کے پِلّے اس اس کی موت پر رو رہے ہیں رہے ہیں‘‘۔ یہ گوری لنکیش کی موت پر ایک انتہائی بدترین ریمارک تھا اور ایسا لگتا ہے کہ اس ریمارک کا مقصد خاتون صحافی و سماجی جہدکار کے قتل کا جشن منانا تھا۔

اگرچہ سورت کے تاجر نکھل دادیچ کے ٹوئٹ پر زیادہ لوگوں نے دھیان نہیں دیا اور اس طرح سے اسے نظرانداز کردیا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مائیکرو بلاگنگ سائیٹ پر دادیچ کو وزیر اعظم نریندر مودی بھی فالو کرتے ہیں۔ جس طرح دادیچ نے معذرت خواہی سے گریز کیا تھا اسی طرح این ناگیشور راؤ سابق آئی پی ایس آفیسر نے بھی سوامی اگنی ویش کی موت پر کئے گئے اپنے انتہائی بدترین ریمارکس پر معذرت خواہی سے انکار کیا ہے۔

دوسری جانب ایوان اقتدار میں بیٹھا ایک حلقہ ہندوستانی مسلمانوں کو جان بوجھ کر ملک دشمن قرار دینے میں مصروف ہے۔ ان کا مقصد دراصل خود کو طاقتور بنانا ہے۔ جب ایک مرکزی وزیر انتخابی جلسہ میں یہ نعرہ لگاتا ہے ’’دیش کے غداروں کو اور جواب میں وہاں جمع لوگ گولی مارو …کو‘‘ کا نعرہ دیتے ہیں تب اس مرکزی وزیر کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے اسے بالکلیہ طور پر نظرانداز کردیا گیا۔ اس کے برعکس جب شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تب احتجاجیوں کو ان کے لباس سے پہچانا گیا یا پھر غیر قانونی تارکین وطن کا دیمک سے تقابل کیا گیا۔ یہاں تک کہ مذہبی تعصب و جانب داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بدترین مثالیں قائم کی گئیں اور فرقہ وارانہ بدخماشی کا بڑے پیمانے پر مظاہرہ کیا گیا۔ ہمارے ملک میں نفرت اور تعصب و جانب داری پر مبنی اشتعال انگیز بیانات جس تیزی سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں اس کی مثال حال ہی میں منظر عام پر آئے سدرشن ٹی وی کے واقعہ سے ملتی ہے۔ اس چیانل نے جان بوجھ کر مسلمانوں کے خلاف اور بالخصوص سیول سروسیز میں مسلمانوں کی بڑھتی تعداد کو ایک سازش قرار دے کر پروگرامس کی ایک سیریز شروع کرنے کا اعلان کیا اور اس پروگرام کا نام یو پی ایس سی جہاد رکھا گیا۔ اس ضمن میں سدرشن ٹی وی نے ایک تشہیری ویڈیو بھی جاری کیا۔ اس قسم کے نفرت انگیز پروگرام کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے ہماری مرکزی وزارت اطلاعات و نشریات نے مسلم طبقہ کو جان بوجھ کر نشانہ بنائے گئے اس پروگرام کو نشر کرنے کی اجازت دی۔

اس ضمن میں اس نے یہ دلیل پیش کی کہ وہ پروگرام کو پروگرام سے پہلے ہی سنسر کرنے کی خواہاں نہیں ہے حالانکہ اطلاعات و نشریات کے جو پروگرامنگ ضابطہ اخلاق ہوتے ہیں اس کے تحت وزارت اطلاعات و نشریات کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ان پروگرامس پر پابندی عائد کرسکتی ہے جس کے ذریعہ نفرت یا مختلف طبقات کے درمیان دشمنی کا ماحول پید کیا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس سدرشن ٹی وی کے اشتعال انگیز پروگرام پر روک لگانے کے لئے دہلی ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کو حرکت میں آنا پڑا اور پھر وزارت اطلاعات و نشریات نے مذکورہ ٹی وی چیانل کو نوٹس روانہ کی۔ ہوسکتا ہے کہ اس مرکزی وزارت کو سدرشن ٹی وی چیانل سے بہت زیادہ ہمدردی ہے کیونکہ وہ حکمراں جماعت کے نظریات کو فروغ دیتا ہے۔ یہ بات یاد رکھی جائے کہ فرقہ وارانہ زہر اور فرضی خبروں کا مقصد ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو بدنام کرنا اور انہیں دوسروں کے سامنے ویلن کے طور پر پیش کرنا ہوتا ہے۔ مہاراشٹرا کے پال گھر میں کچھ عرصہ قبل پیش آئے دو سادھووں کے لنچنگ واقعہ کی مثال لی جاسکتی ہے۔ چند ٹی وی چیانلوں نے ہجومی تشدد میں سادھووں کی ہلاکت کو ہندو ۔ مسلم تنازعہ بنانے کی پوری پوری کوشش کی اور اسے پرائم ٹائم کے مباحث کا موضوع بنایا اور جب یہ پتہ چلا کہ یہ فرقہ وارانہ نوعیت کا واقعہ نہیں تھا بلکہ مقامی قبائل نے واٹس ایپ کے ذریعہ پھیلائی گئی افواہوں کی بنیاد پر ان سادھووں کو بھی بچوں کے اغوا کرنے والے سمجھ کر مار دیا تب سب نے خاموشی اختیار کی اور لیکن اس بھیانک غلطی کے باوجود کسی بھی نیوز چیانل نے معذرت خواہی نہیں کی۔