فرقہ پرستوںکو عدالتی پھٹکار

   

جذبۂ جنوں اپنا آج رنگ لایا ہے
منزلوں تک آپہنچے عزم کے سہاروں پر
فرقہ پرست عناصر ملک میں ہر شعبہ پر اپنا تسلط جمانا چاہتے ہیں۔ اپنے سیاسی ‘ تجارتی اور کاروبار فائدہ کیلئے فرقہ وارانہ جذبات کا استحصال کیا جا رہا ہے ۔ کسی بھی مسئلہ کو فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے بنیادی اور توجہ طلب مسائل سے عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے ۔ ان کے ذہنوں سے مہنگائی ‘ بیروزگاری ‘ معاشی عدم استحکام جیسے اہم مسائل کو کہیںپس منظر میں ڈھکیل کر محض ہندو ۔ مسلم کا راگ الاپا جا رہا ہے ۔ سیاستدان جہاں اپنے فائدہ کیلئے اس طرح کے ریمارکس کر رہے ہیں اور ملک کی سب سے بڑی اور معتبر عدالت کو بھی نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہے ہیں وہیں کچھ مفاد پرست تاجر اپنے تجارتی اور کاروباری نفع کیلئے دیگر اداروں کی اشیاء کو مساجد اور مدرسوں سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کہیںعدالتوں کے دائرہ کار پر سوال کیا جا رہا ہے تو کہیں ان کے کردار کو مشکوک بنانے کی حکمت عملی پر کام کیا جا رہا ہے ۔ کہیں عدالتی احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غریب اور بے بس عوام کے مکانات اور دوکانات کو منہدم کیا جا رہا ہے تو کہیں عدالتی حکمنامہ آنے سے قبل ہی اپنے منصوبوں پر عمل آوری سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ اس صورتحال میں عدالتوں کی جانب سے لگاتار فرقہ پرست عناصر کو پھٹکار لگائی جا رہی ہے ۔ ان کی سرزنش کی جا رہی ہے ۔ انہیں ایسی حرکتوں سے باز رہنے کو کہا جا رہا ہے ۔ عدالتوں کے ریمارکس اور سرزنش کے باوجود ان عناصر کے طرز عمل میں کوئی تبدیلی محسوس نہیںکی جا رہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے عناصر کو تحقیر عدالت کے مقدمات کے ذریعہ جوابدہ بنایا جائے ۔ انصاف پسند اور سماجی بہتری کیلئے کام کرنے والے افراد اور اداروں کو اس معاملے میں آگے آنے کی ضرورت ہے تاکہ عدالتوں سے رجوع ہوتے ہوئے اس طرح کے بے لگام عناصر پر قابو کرنے میںمدد مل سکے ۔ ایک سے زائدمرتبہ عدالتی سرزنش کا سامنا کرنے کے باوجود ان عناصر کے حوصلے پست نہیں ہو رہے ہیں اور وہ اپنی بے لگام باتیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہیں محض اپنے سیاسی اور تجارتی فائدہ کی فکر لاحق رہ گئی ہے اور سماجی تانے بانے متاثر ہونے سے کوئی سروکار نہیںرہ گیا ہے ۔
اترپردیش حکومت تو ایسی حکومت ہوگئی ہے جسے ایک سے زائد مرتبہ عدالتی سرزنش اور پھٹکار کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے ان کے مکانات اور دوکانات کو منہدم کرنے کے مسئلہ پر عدالت نے کئی بار ریاستی حکومت اور عہدیداروں کو نشانہ بنایا ہے لیکن حکومت اس پر توجہ دینے کیلئے تیار نظر نہیں آتی ۔ ایک واقعہ ابھی پایہ تکمیل کو پہونچتا ہی نہیں ہے کہ دوسرا کوئی ایسا کام کردیا جاتا ہے جس پر عدالتی سرزنش کا سامنا کرنا پڑے ۔ یہ طرز عمل ملک میں عدالتوں کی اہمیت اور افادیت کو متاثر کرنے کا سبب ہے ۔ اس طرح کے طرز عمل کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ عدالتی احکام کا پوری طرح احترام کرتے ہوئے ان کی تعمیل کی جانی چاہئے ۔ جس طرح یوگا گرو رام دیو نے روح افزاء شربت کو نشانہ بنایا ہے اس پر بھی آج دہلی ہائیکورٹ نے سرزنش کی ہے اور کہا کہ ایسے ریمارکس نفرت انگیز تقریر کے زمرہ میں آتے ہیں اور ایسے ریمارکس سے ضمیر ملامت کرنے لگتا ہے ۔ رام دیو بھی محض اپنے تجارتی نفع اور فائدہ کیلئے ملک کے عوام کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں۔ انہیںاپنے کچھ دعووں کی وجہ سے پہلے بھی عدالتی پھٹکار ملی تھی ۔ ان کے اشتہارات کو روک دیا گیا تھا ۔ میڈیکل کونسل کی جانب سے تنقید کی گئی تھی ۔ عوام کی صحت سے کھلواڑ کرتے ہوئے یہ اشتہارات جاری کئے گئے تھے ۔ اپنے طرز عمل میں بہتری لانے اور عدالتی احکام کی پابندی کی بجائے رام دیو اب فرقہ وارانہ منافرت پھیلا کر اپنے کاربار کو وسعت دینا چاہتے ہیں۔
بی جے پی رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے کی جانب سے ملک کی سپریم کورٹ کو نشانہ بنایا گیا ۔ سابق چیف الیکشن کمشنر کو نشانہ بنایا گیا اور تنقید کی گئی ۔ عدالتوں نے ان ریمارکس کا نوٹ بھی لیا ہے اور کچھ تبصرے بھی کئے ہیں۔ عدالتوں کے تبصرے ملک کے عوام کو سنجیدگی سے لینے اور ان کے اثرات پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک کے عوام کو بھی اس معاملے میں اپنا ذمہ دارانہ اور سرگرم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے ۔ جو عناصر اپنے فائدہ کیلئے عدالتی پھٹکار کو بھی خاطر میں لانے تیار نہیں ہیں ان سے چوکس رہنے اور ان کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے آگے آنا چاہئے اور صدائے احتجاج بلند کی جانی چاہئے ۔