فلاح و بہبود کا راستہ بھارت میں عمل آوری ممکن ہے؟

   

جرمنی کا بھروسہ غرباء کیلئے سہارا

ڈاکٹراکون سبھروال
آئی پی ایس، تلنگانہ اسٹیٹ سیول سپلائیز کمشنر
اس انتخابات میں اقل ترین آمدنی اسکیمات، سماجی پنشن اور انشورنس اسکیمات کو تمام سیاسی جماعتیں اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہیں اور ایک دوسرے کے مدِمقابل میدان سیاست میں قسمت آزمارہے ہیں۔ ہمیشہ سماجی نعرہ کی بنیادپر ہی اس ملک میں حکومتیں قائم ہوئیں۔ معاشی اصلاحات کا ملک کی معیشت میں داخلہ اور معاشی اصلاحات کا مقامی مارکٹ میں دخل مارکٹ کی طرف بہت زیادہ اثر انداز ہوگیا۔ لیکن عام اور اوسط اور سطح غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والی عوام کی اکثریت والے اس ملک میں مکمل طور پر مارکٹ پر انحصار کرنا یقیناً بڑی غلطی ہوگی۔ امریکہ جیسے ملک میں سال 2008 سے معاشی بحران کے بعد عوام میں یہ بات بہت زیادہ شدت اختیار کرتی رہی کہ عوام کی فلاح و بہبود کے علاوہ عوامی بھلائی کی مکمل ذمہ دار حکومت ہی ہوگی۔ تاہم اس شعبہ میں مشرقی یوروپی ممالک میں ترقی اور مساوی حقوق و اقتدار کی جانب عوامی رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ عام بنیادی آمدنی ( یو بی آئی) اقل ترین آمدنی کی ذمہ داری بھی حکومتوں کی ہونی چاہیئے، ایسا ایک طویل عرصہ سے یوروپی معاشی ماہرین کا نعرہ ہے، اور وہ اس طرح کے اقدامات پر زور دیتے آرہے ہیں اور یہ سفارش کرتے آرہے ہیں کہ حکومتوں کو چاہیئے کہ وہ ( یو بی آئی ) اسکیمات کی عمل آوری کیلئے ضروری فنڈز کو جمع کرتے ہوئے عوامی زندگیوں کو قابل بھروسہ بنائیں۔
بالخصوص ایسے وقت جبکہ روبوٹس اور جدید ٹکنالوجی والے آلات صنعتوں میں روزگار کے مواقعوں کو ختم کررہے ہیں اور ٹکنالوجی کے سبب روزگار کو ختم کرنے کے اس رجحان سے خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ان حالات کے پیش نظر (یو بی آئی ) جیسی اسکیمات کی شدت سے ضرورت و اہمیت محسوس کی جارہی ہے۔اس ضمن میں جرمنی میں عمل میں لائی جارہی اسکیمات کا مشاہدہ کرتے ہوئے بھارت کے لئے کس طرح سے فائدہ ہوگا اس جانب عمل آوری کے اقدامات کئے جانے چاہیئے۔
آمدنی کی تقسیم کا قانون
جائیداد کی تقسیم کا قانون
جرمنی میں 1881 سے ترقیاتی نظام پر عمل آوری جاری ہے۔ تقریباً 8.3کروڑ آبادی والے اس ملک میں 16 ریاستیں ( لینڈرس ) ہیں اور ہر ایک لینڈرس کو 50لاکھ آبادی میں تقسیم کیا گیاہے، اور 16 ریاستوں کی 295 اضلاع اور 12 ہزار مجالس مقامی اداروں میں تقسیم عمل میںلائی گئی، اور 3 مقامی اداروں کے تحت جو خود مختار ادارہ ہوتا ہے تقریباً 7ہزارشہری رہتے ہیں۔ بنیادی سہولیات ، سماجی خدمات، برقی ، پینے کا پانی جیسی عام بنیادی سہولیات کی ذمہ داری اس ادارہ کے تحت ہی ہوتی ہے۔مارکٹ اور معاشی نظام کو ملک کی عوام کی آمدنی اور دولت کی تقسیم کے عمل میں لانے کیلئے1961 میں فیڈرل سماجی مددگارقانون کو نافذ کیا گیا۔ جس کے ساتھ 70 اور 80 ء کے دہے میں نافذ کئے گئے قوانین بہترین انداز میں عمل کئے جارہے ہیں۔1990 میں بھارت جیسے عظیم ملک میں جرمنی جیسے سماجی بیمہ اور سماجی آمدنی والی اسکیمات پر عمل کرنا مشکل تھا ۔ دونوں ممالک کے درمیان آبادی، آمدنی اور فی کس آمدنی کے لحاظ سے زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ باوجود اس کے مرکزی و ریاستی حکومتوں کی جانب سے بے روزگاری بھتہ اور وظیفہ پیرانہ سالی جیسی اسکیمات کو جاری رکھا گیا۔ مہاتما گاندھی، قومی ضامن روزگار یوجنا کے علاوہ مختلف سماجی بھلائی کی اسکیمات اور عومی صحت سے متعلق اسکیمات پر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے انداز میں عمل آوری کی جارہی ہے۔ حالیہ دنوں کانگریس پارٹی کی جانب سے اقل ترین آمدنی کی اسکیم کا اعلان کیا ہے۔ جرمنی کے طرز پر مکمل انداز میں نہ سہی بلکہ مرحلہ وار سطح پر سماجی بیمہ اور ترقیاتی اسکیمات پر یہاں عمل آوری کرنا یقیناً ممکن ہے۔ ایسی اسکیمات کی عمل آوری لئے پہلے سے شناخت رکھنے والی ریاستوں گجرات، ٹاملناڈو، تلنگانہ، آندھرا پردیش جیسی ریاستوں میں طبی نظام میں تحفظ فراہم کرنے کے لئے صحت بیمہ قانون کو عمل میں لانے پر غور کررہا ہے تاکہ کسی شہری کامسئلہ صرف اس کا نجی معاملہ نہیں بلکہ اس مسئلہ کو معاشی نقصان سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی ہر لحاظ سے مدد کی جانی چاہیئے۔
بے روزگاری بھتہ اور سماجی وظیفہ تقسیمی نظام کیلئے 2003 میں پیٹر ہارٹس اصلاحات کو عمل میں لایا گیا۔ ترقیاتی نظام دو اہم ستونوں پر قائم ہے، ایک سماجی ریاستوں کے فنڈز کو سماجی بہبودی اسکیمات پر صرف کرنا ۔ غربت کے خاتمہ کے بغیر بھی ایسے اقدامات کو عمل میں لایا جارہا ہے جیسے کہ تعلیم ، طب اور دیگر بنیادی سہولیات و خدمات کو پہنچاتے ہوئے عوامی زندگی کو بہتر سے بہتر بنایا جاسکتا ہے، اور مرکزی و ریاستی حکومتوں کو خاطر خواہ فنڈز مختص کرنے چاہیئے۔ ریاستی حکومتوں کی جانب سے سماجی طور پر پچھڑے ہوئے طبقات ، معاشی طور پر کمزور طبقات، مختلف فلاحی اسکیمات پر عمل آوری جاری ہے اور ان اسکیمات کو ایک ہی دائرہ کار کے تحت لاتے ہوئے معاشی اور سماجی تقسیمی نظام کی شکل دینی چاہیئے۔ بیمہ اسکیم کیلئے حکومت کل ترقیاتی صرفہ میں 81فیصد اس پر خرچ کرے اور شہریوں کے انفرادی پریمیم کی ادائیگی اس میں جمع کی جانی چاہیئے اور ہر شہری اپنی آمدنی کے اقل ترین حصہ کو اس سماجی بیمہ میں اداکرے ۔ کام کے دوران اداروں میں اگر کوئی حادثہ پیش آئے یا پھر کوئی مشکل حالات یا پریشانی درپیش ہو تو بیمہ سے فائدہ حاصل ہوگا۔
دوسری اہم ریاستوں کی طرح سماجی آمدنی کو مقام دیا جاسکتا ہے۔ انفرادی پریمیم یا پھر رقم کی ادائیگی کے بغیر بھی ہر شہری اس اسکیم کے ذریعہ معاشی مدد حاصل کرسکتا ہے، اور اس پر مرکزی حکومت اور مجالس مقامی کی نگرانی ہوگی۔فلاحی اسکیم پر حکومت کے صرفہ میں 19 فیصد سماجی رقم کے تحت اور 81فیصد سماجی بیمہ کے تحت عمل آوری کی جاتی ہے اور ان دو طریقہ کار کے تحت وظیفہ، صحت کی ضمانت ( آروگیہ بیمہ ) بے روزگاری بھتہ، کام کے مقامات پر حادثات، امکنہ جات کی سہولیات، غربت کی روک تھام اور خاتمہ، خاندانی بہبود و اطفال جیسی دیگر اسکیمات لائی جانی چاہیئے۔ جرمنی میں سماجی ترقی کو تین شعبوں کے تحت رکھا گیا ہے۔ پہلے شعبہ کے تحت سالانہ 73,600 کروڑ یوروز کو مختص کیا گیا ہے۔ دوسرے مرحلہ میں شعبہ کے تحت سالانہ 15,800 کروڑ اور تیسرے مرحلہ میں 7,500 کروڑ یوروز خرچ کئے جارہے ہیں یعنی تقریباً سالانہ ہر شہری پر جرمنی حکومت کی جانب سے 9000 یوروز ( 7 لاکھ روپئے سے زائد ) خرچ کئے جارہے ہیں۔ مرکزی و ریاستی حکومتوں اورمجالس مقامی اداروں کی جانب سے اپنے ٹیکس کی رقم سے خاطر خواہ حصہ سماجی بہبود کے لئے مختص کیا جاتا ہے۔ غربت کے خاتمہ اور عوام کی معاشی اور سماجی حالت کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات میں کوئی خاص عمل آوری نہیں ہوئی لیکن تمام مسائل کے حل کیلئے ایک ہی طریقہ کار ، اور تمام امراض کیلئے ایک ہی طریقہ علاج یا ممکن نہیں۔ جرمنی، سویڈن، ناروے، فن لینڈ جیسے ممالک کے تجربات سے سبق لیتے ہوئے بھارت اپنے انداز میں بہتر طریقہ کار پر عمل کرنے کامنصوبہ تیار کرسکتا ہے۔
ترجمہ : علیم الدین