بھولے سے کوئی حال مرا پوچھتا نہیں
دنیا میں میرا کوئی خدا کے سوا نہیں
فلسطین پر دنیا کا دوغلا پن
دنیا کے سب سے قدیم اور سلگتے ہوئے مسائل میں فلسطین کا مسئلہ بھی شامل ہے ۔ کئی دہوں سے فلسطینی عوام پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ۔ انہیں انتہائی غیر انسانی حالات میں زندگی گذارنے پر مجبور کردیا گیا ہے ۔ ان کی ادویات اور غذا تک کو بند کردیا گیا تھا اور اب بھی ایسا ہی سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ فلسطینیوں کو ان کی ہی سرزمین سے محروم کرتے ہوئے ان کے اطراف سکیوریٹی کے نام پر غیر انسانی تحدیدات کا دائرہ کھینچ دیا گیا ہے ۔ کئی دہوں سے دنیا ان کے حقوق کو تسلیم کرتی رہی ہے اور ان کو ان کا جائز حق دلانے کی بات بھی کرتی رہی ہے تاہم گذشتہ دو دہوں کے دوران صورتحال کو بتدریج تبدیل کیا جاتا رہا ہے ۔ ساری دنیا نے ایک طرح سے فلسطینی کاز سے خود کو الگ تھلگ کرلیا ہے اور فلسطینیوں کو انتہائی سفاک اور ظالم اسرائیل کے آگے بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ہے ۔ خاص طور پر امریکہ اور اس کے حواری مغربی ممالک نے تو فلسطین کے مسئلہ پر انتہائی دوہرے معیارات اختیار کئے ہیں اور اپنے بھونڈے انداز سے فلسطین کے خلاف ظالم اور سفاک قابض اسرائیل کی تائید و حمایت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔ فلسطین کے خلاف اسرائیل نے کئی بار جارحانہ کارروائیاں کی ہیں۔ فلسطین کے نہتے عام شہریوں کو بم حملوںاور فضائی حملوں کا نشانہ بنایا ہے ۔ ان کی جان و مال کو تباہ کیا ہے ۔ کئی بستیوں کو کھنڈر میں تبدیل کردیا گیا ہے اس کے باوجود اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی تو دور کی بات ہے زبان کھولنا تک بھی ان ممالک نے گوارہ نہیں کیا ۔ اس کے برخلاف اسرائیل کی جابرانہ اور ظالمانہ کارروائیوں کا جواز تلاش کرنے اور پیش کرنے کی ہی کوشش کی ہے ۔ اب تو ایک طرح سے فلسطین کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک پر دباؤ ڈالتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے بصورت دیگر ان کی تجارت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ دنیا کے ان ہی دوہرے معیارات کے نتیجہ میںاسرائیل نے اپنی توسیع پسندانہ سرگرمیوں کو جاری رکھا ہے اور فلسطینی سرزمین پر صیہونی یہودی آبادیاں بسائی جا رہی ہیں۔
دنیا کے بیشتر ممالک نے اسرائیل کے عام شہریوں کے حقوق کی بات تو تسلیم کی ہے لیکن انہیں فلسطین کے نہتے اور بے بس عوام کے حقوق اور ان کی مجبوریاں نظر نہیں آتیں۔ یہ ممالک اپنی سہولت کے حساب سے فلسطینی عوام اور ان کے حقوق کے معاملے میں آنکھیں بند کرلیتے ہیں اور اسرائیل کی آنکھ سے ہر شئے کو دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ آج فلسطین اور اسرائیل میں جو صورتحال ہے اس کیلئے بھی ساری دنیا ذمہ دار ہے ۔ فلسطین کے مسئلہ کی جائز اور منصفانہ انداز میں یکسوئی کرنے میں دنیا ناکام رہی ہے ۔ علاقہ میں امریکہ کی سیاست بھی ناکام ہوگئی ہے یا پھر امریکہ نے دنیا کو دھوکہ میں رکھتے ہوئے اسرائیلی مفادات کی تکمیل میں سرگرم اور اہم رول ادا کیا ہے ۔ آج جس طرح سے حالات دھماکو ہوگئے ہیں یہ حقیقت ہے کہ دنیا کیلئے اچھے نہیںکہے جاسکتے لیکن جو حالات پیدا ہوئے ہیں اس کیلئے ساری دنیا اور دنیا کا ڈوغلا پن اور اسرائیل کی اندھی حمایت اور تائید ذمہ دار ہے ۔ فلسطین کے عوام سے کی جانے والی وہ بے رخی ذمہ دار ہے جس کی وجہ سے اسرائیل مسلسل فلسطینی سرزمین پرا پنی نوآبادیات تعمیر کرتا چلا جا رہا ہے ۔ ان کا عرصہ حیات اس حد تک تنگ کردیا گیا کہ یہ لوگ زندگی سے زیادہ موت کو پسند کرنے لگے ہیں۔ انہیں ان کے جائز حقوق سے مسلسل محروم کیا جاتا رہا ہے ۔ آج حماس نے اگر حملے کئے ہیں توجواب میں اسرائیل نے اس سے زیادہ جارحیت دکھائی ہے اس کے باوجود دنیا اسرائیلی کارروائی کا جواز تلاش کرنے میں لگی ہوئی ہے ۔
درجنوں بار ایسا ہوا کہ اسرائیل نے مغربی کنارہ اور غزہ کے خلاف غیر انسانی پابندیاں عائد کردیں لیکن ان ممالک نے زبان کھولنا تک ضروری نہیں سمجھا ۔ آج حماس کی کارروائی کے جواب میں فلسطین کو دی جانے والی ترقیاتی امداد کو بند کرنے کا فیصلہ ہو رہا ہے ۔ یہ نہیں سوچا جا رہا کہ فلسطینی عوام کی غذا ‘ پانی اور ادویات تک بند کردینے کا اسرائیل کا فیصلہ غیر انسانی ہے ۔ آج وقت یہ تقاضہ کر رہا ہے کہ دنیا اپنے ڈوغلے پن کو ختم کرے ۔ اسرائیل کی تائید کی بجائے فلسطینی عوام کے حقوق کو تسلیم کیا جائے ۔ ان کے جائز حقوق دلانے کی کوشش کی جائے تاکہ علاقہ اور مقامی سطح پر پائیداور اور دیرپا امن کو یقینی بنایا جاسکے۔