فلسطین کے خلاف ہندوستان کا ووٹ

   

ہندوستان ایسا لگتا ہے کہ اپنی دیرینہ اور قدیم خارجہ پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے قدیم دوستیوں اور تعلقات کی قیمت پر نئے تعلقات اور اشتراک کو اہمیت دینے کی ڈگر پر چل پڑا ہے ۔ گذشتہ کچھ برسوں کے دوران ویسے تو ہندوستان اور اسرائیل کے مابین باہمی تعلقات میں استحکام آتا جا رہا ہے ۔ کئی شعبہ جات ایسے ہیں جہاں دونوں ممالک کے مابین تعلقات کا آغاز ہوا ہے اور مزید استحکام بھی ان تعلقات کو بخشا جا رہا ہے ۔ ہندوستان ‘ اسرائیل سے مسلسل ہتھیار اور مختلف شعبہ جات میں استعمال کی جانے والی ٹکنالوجی حاصل کرتا جا رہا ہے ۔ کئی اہم امور پر دونوں ملکوں نے یکساں موقف بھی اختیار کرتے ہوئے ایک دوسرے کی تائید و حمایت کی ہے تاہم ہندوستان کی یہ روایتی اور قدیم پالیسی رہی ہے کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کو دو علیحدہ اقوام کے طور پر تسلیم کرتا رہا ہے ۔ ہندوستان اسرائیل سے تعلقات استوار کئے جانے کے باوجود بھی فلسطین کو تسلیم کرتا رہا ہے اور کئی موقعوں پر سابق میں بین الاقوامی فورمس میں فلسطین کے حق میں رائے دی گئی ہے ۔ یہ ہندوستان کی کئی دہائیوں قدیم پالیسی رہی ہے ۔ تاہم نریندرمودی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہندوستان کے موقف میں قدرے تبدیلی آتی جا رہی ہے اور ہندوستان فلسطین کی قیمت پر اسرائیل سے تعلقات کو استوار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہا ہے ۔ ہندوستان نے اقوام متحدہ کی اقتصادی و سماجی کونسل میں گذشتہ ہفتے فلسطینی انسانی حقوق تنظیم ’ شاہد ‘ کو مبصر کے موقف سے بھی محروم رکھنے کے حق میں ووٹ دیدیا ہے ۔ یہ قرار داد اسرائیل کی جانب سے پیش کی گئی تھی اور ہندوستان نے اس کے حق میں ووٹ دیا ہے ۔ یہ ہندوستان کے معلنہ اور مسلمہ موقف کے مغائر فیصلہ رہا ہے اور اسے حیرت و استعجاب کا باعث بھی سمجھا جا رہا ہے ۔ تاہم گذشتہ کچھ عرصہ میں جو فیصلے ہوئے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے اس پر زیادہ حیرت کی گنجائش نہیں رہ جاتی ۔ پھی وی نرسمہا راو کے دور میں اسرائیل سے تعلقات استوار ہوئے تھے اور بتدریج ان میں استحکام پیدا ہوا ہے اور نریندرمودی حکومت میں ان تعلقات کو بہت زیادہ اہمیت و ترجیح دی جا رہی ہے ۔
ہندوستان کا جو معلنہ موقف رہا ہے وہ اسرائیل اور فسلطین کو دو الگ اور آماد ریاطستوں کے طور پر دیکھنے کا رہا ہے ۔ ایسے میں ہندوستان کا جھکاو کئی دہوں سے فلسطین کے ساتھ ہی زیادہ رہا تھا ۔ ہندوستان نے اقوام متحدہ کی اقتصادی و سماجی کونسل میں اپنے قدیم اور دیرنہ موقف سے انحراف کرتے ہوئے نہ صرف اسرائیل کی تائید کی بلکہ اس نے فلسطین کی عملا مخالفت بھی کی ہے ۔ اس قرار داد کے حق میں ہندوستان کے علاوہ امریکہ ‘ برطانیہ ‘ کینیڈا ‘ فرانس ‘ جرمنی ‘ جاپان اور جنوبی کوریا وغیرہ نے ووٹ دیا تھا جو عملا اسرائیل کے حق میں اور فلسطین کے مغائر ووٹ رہا تھا ۔ پاکستان ‘ روس ‘ سعودی عرب اور چند دوسرے ممالک نے تاہم اس قرار داد کی مخالفت کرتے ہوئے فسلطینی تنظیم کے حق میں ووٹ دیا تھا لیکن یہاں بیشتر ممالک سے اسرائیل کو تائید حاصل ہوئی اور ان میں ہندوستان کی تائید زیادہ اہمیت رکھتی ہے اسی لئے اسرائیل نے اس ووٹ پر ہندوستان سے خاص طور پر اظہار تشکر کیا ہے ۔ پہلے تو ہندوستان میں اسرائیلی سفارتخانہ کی جانب سے ٹوئیٹر پر ہندوستان سے اظہار تشکر کرتے ہوئے پیام پیش کیا گیا تھا جبکہ آج اسرائیل کے وزیر اعظم نے بھی ٹوئیٹ کرتے ہوئے اپنے دوست نریندر مودی سے فلسطین کی مخالفت اور اسرائیل کی تائید کرتے ہوئے ووٹ دینے پر اظہار تشکر کیا ہے اور امیدظاہر کی کہ مستقبل میں بھی ایسا تعاون ملتا رہے گا ۔
ساری دنیا اس حقیقت سے واقف ہے کہ اسرائیل ‘ فلسطینی علاقوں پر غاصبانہ قبضہ رکھتا ہے اور وہ اس قبضہ کو نت نئے انداز سے توسیع دیتا رہتا ہے اور فلسطینیوں کے انسانی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے ۔ ان کا عرصہ حیات تنگ کیا جاتا ہے ۔ ہندوستان اس مسئلہ میں ہمیشہ سے فلسطین کی حمایت کرتا رہا تھا لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان اپنے اصولی اور دیرینہ اور انصاف پسند موقف سے انحراف کر رہا ہے ۔ اسرائیل سے دوستی ہندوستان یقینی طور پر کرسکتا ہے اور اس کو آگے بھی بڑھایا جاسکتا ہے لیکن اس کو فلسطین یا فلسطینی کے واجبی اور منصفانہ کاز کی قیمت پر آگے بڑھانے اور مستحکم کرنے سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت ہند کو مستقبل میں ایسے موقعوں پر احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے ۔