فلموں کے ذریعہ نفرت

   

ہندوستان میں فلموں کی ہمیشہ اہمیت رہی ہے ۔ فلموں کے ذریعہ سماج کو ایک پیام دینے کی کوشش کی جاتی رہی تھی ۔ فلموں کے ذریعہ مزدوروں کو حق دلانے کی جدوجہد کی گئی ۔ سماج میں پائی جانے والی برائیوں کے خاتمہ کیلئے فلموں کا سہارا لیا گیا تھا ۔ فلموں کے ذریعہ ہی امیری و غریبی کے فرق کو مٹانے کی کوشش کی گئی ۔ عوام کے استحصال اور سیاستدانوں کے کالے کرتوتوں کا پردہ فاش کرنے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ۔ ہندوستان میںفلمیں صرف تفریح طبع کا ذریعہ نہیں رہیں بلکہ ان کے ذریعہ سماج کو سدھارنے اور اس کی برائیوں کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ ہندوستانی فلموں کی دنیا بھر میں اہمیت رہی تھی اور ان کی افادیت کو تسلیم کیا گیا تھا ۔ فلموں کے ذریعہ جذبہ حب الوطنی کو فروغ دینے کیلئے بھی کوششیں کی گئی تھیں اور بحیثیت مجموعی ہندوستان میں فلم سازی مثبت پہلو پر ہوتی رہی تھی ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ سماج کے مختلف شعبہ جات میں نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوششوں کے دوران اب مذہبی بنیادوں پر بھی نفرت پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس کیلئے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور الٹی تصویر عوام کے سامنے پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جا رہا ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ ایسا کرنے والوں کو روکنے کی بجائے ان کی سرپرستی کی جا رہی ہے ۔ انہیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ انہیں سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں تاکہ وہ سماج میں نفرتوں کو ہوا دے سکیں۔ کچھ ماہ قبل دی کشمیر فائیلس کے ذریعہ اس کی شروعات کی گئی تھی ۔ کشمیری پنڈتوں کے نقل مقام کے مسئلہ کو بھی فلم کے ذریعہ عوام میں اس طرح سے پیش کیا گیا جس سے سماج میں نفرتوںکو فروغ حاصل ہو ۔ کشمیری پنڈتوں کا نقل مقام اور ان کے مسائل اور پریشانیاں ایک حساس مسئلہ ہیں اور یہ پنڈت جن مسائل کا شکار ہوئے تھے ان کو حل کرنے حکومت کی جانب سے کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔ ان کے مسائل کو عوام کے درمیان اشتعال انگیز ڈھنگ سے پیش کرتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ اس فلم کے ذریعہ دولت بھی کمائی گئی لیکن کشمیری پنڈتوں کو کوئی راحت نہیں پہونچائی گئی ۔
کشمیر فائیلس کے بعد اب دی کیرالا فائیلس نامی فلم کے ذریعہ اشتعال انگیزی کی جا رہی ہے اور سماج میں نفرت پیدا کرنے کی منظم کوشش ہو رہی ہے ۔ اس فلم میں نام نہاد لو جہاد مسئلہ کو پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ عدالتی فیصلوں اور کئی طرح کی رپورٹس میں یہ واضح ہوچکا ہے کہ لو جہاد نامی کوئی چیز ہے ہی نہیں ۔ یہ الزام انتہائی بے بنیاد ہے کہ غیر مسلم لڑکیوں کو مسلمان لڑکے محبت کے جال میں پھانس کر ان کا مذہب تبدیل کروا رہے ہیں۔ اس الزام کا کوئی ثبوت نہیں ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندو لڑکوں کو یہ باضابطہ ترغیب دی جا رہی ہے کہ وہ مسلم لڑکیوں کو محبت کے جال میں پھانسیں۔ ان سے شادی کریں۔ ان کا استعمال کریں۔ ان کا بدیل کروائیں اور پھر ان کو در در کی ٹھوکریں کھانے کیلئے مجبور کردیا جائے ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس پر سب کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ سماج میں نفرت پھیلانے کی ہر کوشش کی مذمت کی جانی چاہئے ۔ اس کی مخالفت کی جانی چاہئے اور ایسی کوششوں کی روک تھام کی جانی چاہئے ۔ ایسی کوششیں کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے تاکہ دوسروں کیلئے عبرت ہوسکے ۔ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے اس طرح کی کوششیں کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہونچانا ضروری ہے تاکہ ملک میں امن و ہم آہنگی متاثر ہونے نہ پائے ۔ ہندوستان کی جو مذہبی رواداری کی مثالیں ہیں ان کو کوئی متاثر نہ کرسکے ۔ سماج میںپرامن بقائے باہم کے اصولوں کو فروغ دیا جاسکے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مزید مستحکم اور مضبوط کیا جاسکے ۔
تفریحی شعبہ پر اثر انداز ہونے کی چند گوشوں کی جانب سے منظم کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کچھ فلمسٹارس کو نشانہ بنانے کی مہم چلائی گئی ۔ یہ بے اثر ثابت ہوئی ۔ ہماری فلم انڈسٹری مذہبی تفریق اور بھید بھاؤ سے پرے ہے اور اس کے ذریعہ سماج میں مثبت تبدیلیاں لانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ تجارتی پہلو الگ رہے ہیں لیکن سماج کو ایک پیام دینے کی کوشش ضرور کی گئی ہے۔ تاہم اس انڈسٹری کو بھی فرقہ وارانہ تعصب کا شکار کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ زہر آلود فلموں کی تیاری ہونے لگی ہے ۔ اس روایت کو روکا جانا چاہئے ۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے اور نفرت پھیلانے کی کسی کو اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔