کسی بھی جمہوری طرز حکمرانی والے ملک میں اپوزیشن کی آواز کی بھی اہمیت ہوتی ہے ۔ خود ہمارے اپنے ملک ہندوستان میں بھی اپوزیشن کے رول سے کوئی انکار نہیںکرسکتا ۔ اپوزیشن کو اپنی آواز اٹھانے اور اپنی تشویش ظاہر کرنے کا پورا موقع دیا جاتا رہا ہے ۔ اپوزیشن کی رائے کوحکومت کی جانب سے کی جانے والی قانون سازی میں بھی جگہ دی جاتی تھی اور اپوزیشن کی تجاویز کا احترام کیا جاتا تھا ۔ تاہم حالیہ عرصہ میںاپوزیشن کو یہ شکایت لاحق ہونے لگی ہے کہ اس کی آواز کو دبایا جا رہا ہے اور اس کی رائے کو کوئی اہمیت نہیںدی جا رہی ہے ۔ ایسے کئی مواقع پیش آئے ہیں جب اپوزیشن نے کوئی رائے دی ہے اور اس کو قبول کرنے سے انکار کردیا گیا ہے ۔ کئی مواقع ایسے بھی آئے ہیں جب ملک میں اہم قوانین بنائے گئے ہیں اور پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو اظہار خیال کا موقع تک نہیںدیا گیا ۔ ایوان میں کسی طرح کے مباحث نہیںکروائے گئے اور حکومت کے قوانین کو منظوری دیدی گئی ۔ انتہائی اہمیت کے حامل اور حساس قوانین پر بھی حکومت کی جانب سے اڈھاک رویہ اختیار کیا گیا اور کسی طرح کے مباحث کی گنجائش ہی فراہم نہیں کی گئی ۔ اب قائد اپوزیشن راہول گاندھی نے حکومت اور اسپیکر لوک سبھا کے رویہ پرسوال اٹھایا ہے ۔ ان کو یہ شکایت ہے کہ اسپیکر کی جانب سے انہیں ایوان میں اظہار خیال کرنے کا موقع نہیں دیا جارہا ہے ۔ جب کبھی وہ ایوان میں اظہار خیال کیلئے اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں اسپیکر کی جانب سے انہیںاظہار خیال کا موقع دئے بغیر ایوان کی کارروائی کو ملتوی کیا جا رہا ہے ۔ ان کے خلاف نازیبا ریمارکس کئے جا رہے ہیں اور ان کی رائے کو قبول کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ جمہوریت میں اس طرح کا طرز عمل ٹھیک نہیں کہا جاسکتا کیونکہ جمہوری عمل کا حصہ رہنے والے ہر گوشے کو ملک میں اپنی رائے ظاہر کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے اور اپوزیشن کے خیالات کی سنجیدگی سے سماعت کی جانی چاہئے اور اگر مناسب ہو تو اس کو حکومت کے منصوبوں کا حصہ بنایا جانا چاہئے ۔ یہی جمہوریت کا طرز عمل ہے اور یہی ہندوستانی جمہوریت کا طرہ امتیاز بہت پہلے سے رہا ہے ۔
یہ دیکھا گیا ہے کہ مرکزی حکومت ملک میں اپوزیشن کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہے ۔ کانگریس مکت بھارت کا نعرہ دینے والی مودی حکومت کا اصل منصوبہ یہی دکھائی دیتا ہے کہ وہ ملک میں اپوزیشن کے وجود ہی کو ختم کرنا چاہتی ہے ۔ ابھی سے اپوزیشن کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے ۔ کئی اہم قوانین اور بلوں کے تعلق سے جب اپوزیشن کی جانب سے کوئی رائے دی جا رہی ہے تو اس کو قبول نہیں کیا جا رہا ہے ۔ اس کی تازہ ترین مثال وقف ترمیمی بل ہے ۔ وقف ترمیمی بل پر جو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس کے اجلاسوں کے دوران اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ارکان نے کئی مواقع پر اپنی رائے پیش کی ہے اور کچھ تجاویز بل میں شامل کرنے کی بات کہی تھی لیکن جے پی سی میں بھی غلبہ والی سیاست کا عروج ہی دکھائی دیا ہے اور جے پی سی نے بھی اپوزیشن ارکان کی رائے کو اس بل میں شامل کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ یہ طرز عمل جمہوریت کے تقاضوں کے مغائر ہے اور اس سے جمہوری عمل کی افادیت متاثر ہوجاتی ہے ۔ حکومت کا ذمہ یہ بھی ہے کہ وہ جہاں ملک میں حکمرانی کو یقینی بنائے وہیں جمہوریت کے استحکام کو بھی پیش نظر رکھے ۔ صرف اکثریت کے زعم اور غلبہ میں کام نہیں کیا جاسکتا بلکہ اپوزیشن کی رائے کا احترام بھی کیا جاتا ہے اور اس کی پیش کردہ تجاویز کو قبول کیا جاتا ہے ۔ سیاسی اختلاف کو سیاست تک محدود رکھتے ہوئے حکومت اور سرکار کے کام کاج میں سب کی رائے کو مقدم رکھنا ہی اصل جمہوریت کہی جاتی ہے ۔
جہاں تک اسپیکر لوک سبھا کی بات ہے تو وہ ایوان کے سربراہ ہوتے ہیں اور ایوان کے کام کاج میں بھی سیاسی وابستگی کو پیش نظر نہیں رکھا جانا چاہئے ۔ قائد اپوزیشن ایک دستوری عہدہ ہے اور دستوری عہدہ کے تعلق سے امتیازی رویہ اختیار نہیں کیا جانا چاہئے ۔ قائد اپوزیشن کو ساری اپوزیشن جماعتوں کا لیڈر کہا جاتا ہے اور وہ اپوزیشن کی رائے ایوان میں پیش کرنے اور اپوزیشن کے موقف سے حکومت کو واقف کروانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ انہیں ایوان میںاظہار خیال کا پورا موقع دیا جانا چاہئے اور ان کے تعلق سے کسی طرح کے نازیبا ریمارکس سے بھی سب کو گریز کرنا چاہئے ۔ دستوری عہدہ کا احترام سب کیلئے ضروری ہے ۔