میر عثمان علی خان نے 1911سے 1948تک ریاست حیدرآباد پر حکمرانی کی تھی
حیدرآباد۔ آصف جاہ صابع(نظام ہشتم) کی کے 120وارثین کی قانونی جدوجہد اس وقت سامنے ائی اب وہ ستر سال قبل لندن کی بینک میں ڈپازٹ کی گئی 35ملین پاؤنڈ کی رقم اپنا دعوی پیش کرنے کی تیاری میں مصروف دیکھائی دئے۔
ستر سالہ قدیم تنازعہ پر یوکے ہائی کورٹ میں 2اکٹوبر کے روز پیش ائے ہندوستان کی حمایت میں فیصلے کے بعد ساتویں نظام میر عثمان علی خان کے قانونی وارثین پرتوجہہ مرکوز ہوگئی ہے‘ ریاست حیدرآباد کے آخری حکمران جس کا انضمام1948میں انڈین یونین میں ہوا تھا
وارثین کی جانب سے اپنے حصہ کی دعویداری کی تیاری
کچھ اس طرح کی جانکاری بھی موصول ہوئی ہے کہ عدالت کے فیصلے کے پیش نظر رقم پرنس مکرم جاہ بہاد‘ اٹھویں نظام اور ان کے چھوٹے بھائی مفخم جاہ جہاد کے پاس جائے گی‘ آصف جاہی دور کے آخری حکمران کے دیگر وارثین بھی اپنے دعوی پیش کرنے کی تیاری میں جٹ گئے ہیں۔
نجف علی خان جو میر عثمان علی خان کے پوتروں میں سے ایک ہیں نے ائی اے این ایس کو بتایا کہ انہوں نے قدیم ریکارڈ جمع کراتے ہوئے عدالت میں پیش کئے تھے اور اس ضمن میں بات چیت بھی کی تھی جس کی وجہہ سے پیسوں کی واپسی یقینی ہوئی ہے۔
انہوں نے استفسار کیاکہ”اگر وہ دونوں پوترے ہی دعویدار ہیں توپھر وہ 2013تک خاموش کیوں بیٹھے رہے“۔اپنے دعوی میں انہوں نے کہاکہ سال2016 تک ان کے پاس لندن میں مقدمہ لڑنے کے لئے ایک وکیل تھے مگر انہیں نظام اسٹیٹ کے تحت مقدمہ لڑنے کے لئے راضی کرلیاگیاتھا۔
خان جو120وارثین کی نمائندگی کا دعوی کررہے ہیں نے کہاکہ حکومت ہند اور نظام اسٹیٹ کے درمیان مشترکہ طور پر مقدمہ لڑنے کے معاہدے میں وہ ایک پارٹی ہیں۔ انہوں نے بھروسہ دلایا کہ مذکورہ رقم کی تمام نظام کے تمام وارثین میں تقسیم ہوگی۔
مذکورہ یوکے کی ہائی کورڈ نے پاکستان کی جانب سے نٹ ویسٹ بینک میں 1948کے وقت ریاست حیدرآباد کے انضمام کے دوران جمع کی گئی رقم پر پیش کئے گئے دعوی کو مسترد کردیا ہے
تقسیم کے بعد
تقسیم ہند اور اس کی وقت کی ریاست حیدرآباد کے انڈین یونین میں انضمام کے بعد نظام کے فینانس منسٹر معین نواز جنگ نے 10,07,940پاونڈس اسٹرلنگ اور نو شیلنگ اس وقت کے پاکستان ہائی کمشنر برائے لندن ایچ ائی رحمت اللہ کے نام منتقل کئے تھے۔
ہندوستان نے اس پر اعتراض جتایااور کہاکہ نظام خود مختار حکمران نہیں ہیں اور بینک پر دباؤ ڈالا کے وہ اکاونٹ منجمد کردے‘ اس کے بعد سے معاملے پر حساسیت چھائی رہی۔
ایسا کہاجاتا ہے کہ 15اگست1947کو ملی آزای کے بعد مذکورہ نظام ہشتم نے ہندوستان میں شامل ہونے سے انکا رکردیاتھا۔ وہ آزاد مملکت یا پھر پاکستان میں شامل ہونا چاہتے تھے۔
جاگیردانہ مملکت کابالآخر 1948ستمبر میں انڈین آرمی کے اپریشن کے بعد انضمام عمل میں آیا۔ یوکے کی عدالت میں سنائے گئے فیصلے کو چیالنج کرنے کے لئے پاکستان کے پاس چار ہفتے ہیں۔ نظام کے وارثین کو توقع ہے کہ اگلے د س دنوں میں کیس کی مکمل وضاحت ہوجائے گی۔
پرنس ہاشم جاہ بہادر کے بیٹے نجف علی خان نے کہاکہ ”اگر مذکورہ دوبھائی ہمیں اپنا حصہ دینے سے انکار کرتے ہیں تو ہم عدالت جائیں گے‘ ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے“۔
کیا آپ لندن ہائی کورٹ یا ہندوستانی کی عدالت سے رجوع ہوں گے کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ”ہمارے قانونی مشیروں سے رائے حاصل کرنے کے بعد ہم فیصلہ کریں گے“
پندرہ سالوں سے کوئی اعتراض نہیں ہوا
انہوں نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ بینک میں پھنسے ہوئے پیسوں کے لئے جدوجہد پر پندرہ سالوں سے کوئی اعتراض نہیں جتایاگیا۔انہوں نے دعوی کیاکہ نہ تو نظام ٹرسٹ او رنہ ی مکرم جاہ کی مطلقہ بیوی کا اس رقم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
خان نے دعوی کیاکہ ہے کہ ان کے دادا نے کبھی بھی نہیں کہاکہ مکرم جاہ اور مفخم جاہ ہی ان کے د و قانونی وارثین ہیں۔ نجف علی خان جو نظام فیملی ویلفیر اسوسیشن کے صدر ہیں نے کہاکہ ”ان کے تمام بیٹے‘ پوترے‘ پوتریاں‘ قانونی وارثین ہیں“۔
نظام اپنے بیٹے او ربیٹوں کی پیدائش کے موقع پر ایک اعلامیہ جاری کرتے تھے جس میں ان کے وارثین کے نام ہوتے تھے۔ خان نے کہاکہ اگر مکرم جاہ اوران کے بھائی ہے قانون وراث ہیں تو دیگر کو نظام کی جانب سے قائم کردہ ٹرسٹوں کے فوائدبھی نہیں ملنے چاہئے۔
انہوں نے اشارۃ 1995میں نظام کے جواہرات کی فروخت کے بعد حکومت ہند سے حاصل رقم کا حوالہ دیا جس کی تقسیم تمام وارثین میں ہوئی تھی۔ نجف علی خان نے ہاشم جاہ بہادر کے بیٹے ہیں جو میرعثمان علی خان نے سولہویں اولاد تھیں۔ نظام کی اٹھارہ بیٹیاں بھی تھیں۔ صرف ایک بیٹی زندہ ہیں۔
نظام کے دس بیٹے او ربیٹیاں کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان کے 104پوترا پوتریاں ہیں جس کس میں کچھ زندہ ہیں اورکچھ کا انتقال ہوگیاہے۔ نظام کے چار سو سے زائد فیملی ممبران میں پانچویں پشت حیدرآباد میں ہے او رکچھ ملک کے دیگر حصوں میں یا پھر بیرونی ممالک میں مقیم ہیں
میر عثمان علی خان
میر عثمان علی خان نے1911سے 1948تک ریاست حیدرآباد پر حکمرانی کی تھی اور دو بلین امریکی ڈالر کے ساتھ دنیا کے امیر ترین اشخاص میں ان کاشمار کیاجاتاتھا۔ حیدرآباد کے انڈین یونین میں انضمام کے بعد نظام 1948میں ریاست کے راج پرمکھ مقرر ہوئے اور 1956تک انتظامیہ سنبھالا۔
اپنے بڑے بیٹے اعظم جاہ بہادر کو پرنس بیرار مقرر کیا اور مکرم جاہ کو اپنا جانشین۔میر عثمان علی خان کی 1967میں انتقال کے بعد مکرم جاہ کو نظام کے اعزاز سے نوازا گیا۔مکرم جاہ جو 6اکٹوبر کے روز85سال کے ہوگئے ہیں کی زیادہ تر زندگی بیرونی ممالک آسڑیلیا اور ترکی میں گذری ہے۔
انہو ں نے پانچ شادیاں کی ہے اور ان کا کہنا تھا کہ ان کی دولت کا بڑا حصہ طلاق کے معاملات سلجھانے میں لگ گیاہے۔
مکرم جاہ بہادر پر چچازاد بھائیوں کو ان کی عالیشان طرز زندگی اور قائدانہ صلاحیت کی کمی کی وجہہ سے خاندان میں پہچان بنانے میں ناکامی کا الزام لگایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ”وہ چاہتے تو فیملی ممبران کی مدد کرتے‘ جو بڑی معاشی پریشانیوں سے دوچارہیں“