قبل اس کے کوئی حساب لے

   

محمد مصطفی علی سروری
تانو تومر کی عمر 17 سال ہے۔ وہ باغبت ضلع کے شہر براوٹ کی رہنے والی ہے۔ اس کے والد ایک کسان ہیں۔ جب گذشتہ ہفتے کے دوران اترپردیش کے مادھیامک سکھشا پریشد (ایم ایس پی) کے نتائج کا اعلان ہوا تو اس لڑکی نے (97.8) فیصدی نشانات حاصل کرتے ہوئے پوری ریاست میں ٹاپ پوزیشن حاصل کی اور اخبار دی انڈین ایکسپریس میں 28؍ اپریل 2019 کوشائع ہوئی رپورٹ کے مطابق تانو تومر کی کامیابی کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ انٹر سال اوّل میں بھی اس نے نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔ یہاں تک کے تانو کے ٹیچرس اس کی پڑھائی کے لیے کی جانے والی محنت کو دیکھتے ہوئے پہلے ہی سے اس کی نمایاں کامیابی کی پیش قیاسی کر رہے تھے۔ تانو ہے تو ایک کسان کی بیٹی لیکن اپنے تعلیمی مستقبل کے حوالے سے وہ کس قدر محتاط ہے اور کیسی منصوبہ بندی کر رہی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تانو نے اس برس ہونے والے کل ہند انٹرنس امتحان (NEET) میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس نے اخبار کے نمائندہ رپورٹر کو بتلایا کہ میں NEET کا امتحان ایک ہی مرتبہ لکھنا چاہتی ہوں اور اس میں کامیابی درج کر کے ڈاکٹری کے کورس میں داخلہ لینا میرا مقصد ہے اور تانو تومر کے مطابق اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تانو پورے ایک سال تک NEET کے امتحان کے لیے تیاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالانکہ تانو اس برس بھی نیٹ کا امتحان لکھ سکتی تھی لیکن اس نے کافی سونچنے کے بعد NEET امتحان پاس کرنے کے لیے طویل مدتی کوچنگ لینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے مطابق، ’’میں اس امتحان کے لیے اچھے سے تیاری کرنا چاہتی ہوں اور چونکہ ہمارے ہاں اتنے زیادہ مواقع نہیں ہیں اس لیے میں کوچنگ کے لیے مشہور راجستھان کے شہر کوٹہ کا رخ کروں گی اور وہاں پرپورے سال اچھی طرح NEET کی تیاری کرنے کے بعد اگلے برس یہ امتحان لکھوں گی۔‘‘ پورے اترپردیش کا تعلیم کا منظر نامہ کیسا ہے یہ سمجھنے کے لیے یہاں پر ایک خبر کا حوالہ ضروری ہے۔ اخبار ہندوستان ٹائمز کی 30 ؍ اپریل 2019ء کو شائع ہوئی خبرکے مطابق اتر پردیش کے دسویں کے بورڈ امتحانات میں تقریباً 32 لاکھ طلبہ نے رجسٹریشن کروایا تھا اوران میں سے تقریباً 5 لاکھ طلبہ ہندی کے مضمون میں فیل ہوگئے۔ جی ہاں ۔ وہ طلبہ جن کی مادری زبان ہندی ہے وہ اسی مضمون میں امتحان پاس نہیں کرسکے۔ یو پی کے دسویں کے بورڈ ، سکریٹری نینا سریواستو نے ہندوستان ٹائمز کو بتلایا کہ ہندی میں 5 لاکھ طلبہ کے فیل ہوجانے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہوسکتی ہے طلبہ نے ہندی کو پڑھنے کے لیے ویسی توجہ اور وقت نہیں دیا ہوگا جیسا کہ دوسرے کسی سبجیکٹ کو دیا جاتا ہے۔
آر کے سنگھ بابو ترلوکی سنگھ انٹر کالج کے پرنسپل ہیں۔ انہوں نے ہندوستان ٹائمز کو بتلایا کہ بہت سارے اسٹوڈٹنس ہندی کے مضمون کو سنجیدگی سے نہیں پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس سبجیکٹ کو آسانی سے پاس کرلیں گے لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہندی کا امتحان بھی پاس کرنے کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے اور پڑھنا پڑتا ہے۔ اس تعلیمی پس منظر کو جان لینے کے بعد اترپردیش میں 5 لاکھ طلبہ صرف ہندی کے مضمون میں فیل ہوئے ہیں ذرا اس کسان کی لڑکی کی کامیابی کے بارے میں سونچیے کہ پوری ریاست بھر میں اس لڑکی کا ٹاپ پوزیشن حاصل کرنا کتنا بڑا کارنامہ ہے۔ اس کے باوجود اس لڑکی نے اسی برس NEET کا امتحان نہ لکھنے کا فیصلہ کیا اور خاص کر اس امتحان کی تیاری کے لیے مزید ایک سال تیاری کرنے کا اعلان کیا۔
تانو تومر سے کامیابی کا راز جاننے کے لیے جب اخبار انڈین ایکسپریس نے سوال کیا کہ اپنی کامیابی کا راز بتلائو تو لڑکی نے کہا کہ میں ہر ایک کو یہ بتلانا چاہتی ہوں کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے کسی طرح کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ ٹاپرس بننے کے لیے ایک دن یا ایک مہینے کی محنت نہیں لگتی۔ میں نے ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے کے لیے اس دن سے محنت شروع کردی جب میں نے دسویں پاس کر کے انٹر فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا تھا۔ تانو نے بتلایا کہ کالج میں تو وہاں کا ٹائم ٹیبل تھا لیکن گھر میں بھی وہ پڑھائی کیسے کرے اس کے لیے اس نے اپنی ٹیچر کی مدد سے ٹائم ٹیبل تیار کرلیا، جس پر وہ اپنے گھر میں عمل کرتی تھی۔
تانو کی صبح کا آغاز ہر روز پانچ بجے سے ہوتا تھا۔ اسکول جانے سے پہلے وہ روزانہ ساری پڑھائی کا اعادہ کرلیتی تھی۔ روزانہ 17 سے 20 گھنٹے پڑھائی کا معمول تھا۔ جس میں اسکول کے بعد پانچ تا چھ گھنٹے کی پڑھائی اپنے طور پر گھر پر کرنا ہوتا تھا۔ جون کے مہینے میں ہی اس نے 12 ویں کا نصاب پورا پڑھ لیا تھا اور اب اس کو Revise کرتی رہی۔ فائنل امتحانات سے پہلے ہی تانو 5 تا 6 مرتبہ امتحانات لکھنے کی مشق کی۔ اس نے کہا کہ میں نے اپنے آپ کو کبھی ڈھیل نہیں دی اور سختی سے ٹائم ٹیبل کی پابندی کی۔ اپنے گھر والوں کو بھی اپنی کامیابی کا کریڈٹ دیتے ہوئے تانو نے بتلایا کہ کوئی بھی اسٹوڈنٹ اپنے گھر والوں کے تعاون کے بغیر کامیابی حاصل نہیں کرسکتا ہے اور میرے ساتھ بھی ایسا ہوا۔ میرے گھر والوں نے میرے لیے وہی خواب دیکھے جو میں دیکھا کرتی تھی اور پھر ان لوگوں نے مجھے اپنے خوابوں کو پورا کرنے میں مدد کی۔ میری عمر کی دوسری لڑکیاں گھر کے کام کاج میں وقت گزارتی تھیں لیکن میرے گھر والے مجھے اپنی پڑھائی کرنے کے لیے سہولیات فراہم کرتے تھے۔
تین بھائی بہنوں میں اپنے گھر کی سب سے بڑی ہونے کے ناطے تانو اپنی چھوٹی بہن اور بھائی کے لیے بہترین مثال قائم کی۔ تانو کی کامیابی کا ایک بڑار از اس کا ٹیلی ویژن، موبائل فون اور فلموں سے بچ کر رہنا ہے۔ اس کے ٹائم ٹیبل میں ان چیزوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔
قارئین ایک اور اہم رجحان ملک گیر سطح پر یہ رہا کہ لڑکیاں پڑھ رہی ہیں۔ یو پی کے بارہویں کے بورڈ امتحانات میں ٹاپ تین پوزیشن پر لڑکیوں نے ہی اپنے نام درج کروائے ہیں۔ سکنڈ پوزیشن بھاگیہ شری نامی لڑکی کو ملا اور تھرڈ پوزیشن آکانشا نے حاصل کی۔
قارئین صرف تعلیم کے میدان میں ہی نہیں گذشتہ ہفتے کے دوران خبروں میں گومتی مری متھو 30 سالہ خاتون اتھلیٹ کا نام بھی آیا جو اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ تعلیم کے میدان میں ہی نہیں کھیل کود کے میدان میں بھی لڑکیاں ایک سے بڑھ کر ایک کارنامے انجام دے رہی ہیں۔ جی ہاں گومتی نے ایشین اتھیلیٹ چمپئن شپ 2019 کے دوران دوحہ میں گولڈ میڈل جیت کر ہندوستان کو پہلا گولڈ میڈل دلوایا۔ تاملناڈو کی تروچلاپلی گائوں سے تعلق رکھنے والی اس خاتون اتھلیٹ کے والد کھیتوں پر کام کرتے تھے۔ انگریزی میگزین اسپورٹس اسٹار سے بات کرتے ہوئے گومتی نے بتلایا کہ میرے لیے میرے والد ہی سب سے بڑے کوچ تھے۔ جس وقت وہ دوحہ میں 800 میٹر کی ریس جاری تھی تو میڈیا کے بعض گوشوں نے کہا کہ گومتی دوڑ کے مقابلوں میں جو جوتے پہنے ہوئے تھی وہ دراصل پھٹے ہوئے تھے۔ اسپورٹس اسٹار میں 29؍ اپریل کو شائع رپورٹ کے مطابق گومتی نے کہا کہ میرے جوتے پھٹے ہوئے ہونا کوئی خاص بات نہیں۔ ان جوتوں کو پہن کر دوڑتے ہوئے گولڈ میڈل جیتنا اہم تھا اور وہ جوتے میرے لیے لکی ثابت ہوئے ہیں۔ اخبار انڈین ایکسپریس کو بتلایا کہ میرے والد میرے استاد تھے چاہے صبح میں الارم بجے یا نہ بجے ہر صبح 4 بجے وہ مجھے بیدار کر کے ٹریننگ کے لیے تیار کرواتے تھے۔ میری ماں بیمار ہوئی تو میرے والد ہی مجھے ٹریننگ پر جانے سے پہلے دودھ گرم کر کے دیتے تھے۔ ایک غریب مزدور کی بیٹی کا گولڈ میڈل تک کا سفر کیسا رہا اس کے متعلق 27؍ اپریل کو انڈین ایکسپریس میں شائع رپورٹ کے مطابق گومتی نے بتلایا کہ میں نے سخت محنت کی اور تبھی میں نے گولڈ میڈل حاصل کیا ہے۔ میرا تعلق تو ایسے خاندان سے ہے جہاں پر ہم لوگ دو وقت کے کھانے کے لیے محنت کرتے تھے۔ یہاں تک کہ میرے والد جب بیمار تھے اور دواخانے میں شریک تھے ہمارے لیے کھانا نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت بھی جو کھانا ملتا میرے والد مجھے کھانے دیتے تھے تاکہ میں کھانا کھاکر اپنی فزیکل ٹریننگ پوری کرسکوں۔ اپنے والد کی توجہ اور ترغیب سے حوصلہ پاکر گومتی نے پھٹے جوتوں سے دوڑ لگائی اور جوتوں کی خرابی کو بہانہ نہیں بنایا اور بلکہ انہیں خوش قسمتی کی علامت قرار دیا۔
جب گومتی نے ٹریننگ پوری کرلی عین اس وقت اس کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا اور گومتی نے ایک دوسرے کوچ کی خدمات حاصل کی لیکن عین مقابلوں سے پہلے وہ بھی گزر گیا لیکن گومتی نے ہمت سے کام لیا اور آگے بڑھ کر ثابت کیا کہ اول تو کامیابی اتفاقی نہیں ہوتی۔دوم عزائم بلند ہوں تو پھٹے جوتوں کے ساتھ بھی دوڑ لگائی جاسکتی ہے۔ اسپورٹس کے شعبے میں گومتی کی کامیابی نے اس کو اب ایک سرکاری نوکری بھی دلوادی ہے۔ اب وہ اولمپک مقابلوں میں حصہ لینا چاہتی ہے اور فخر سے کہتی ہے کہ وسائل کامیابی کے لوازمات نہیں کڑی محنت اور مسلسل لگن ہی کامیابی کا راستہ ہے۔
قارئین یہ تو ان لڑکیوں کی مثالیں ہیں جو تعلیم کے میدان اور اسپورٹس کی فیلڈ میں کامیابی کے پرچم لہراچکی ہیں۔ اب سوال ہے کہ ہمارے سماج کے نوجوان لڑے کہاں ہیں۔ تعلیم کے میدان میں بھی لڑکیاں سبقت لے جارہی ہیں اور کھیل کود کے مقابلوں میں بھی لڑکیوں کو گولڈ میڈل مل رہا ہے۔ کامیابی حاصل کرنے والی گومتی نے اپنے باپ کے گزرجانے کے بعد اپنے بھائی بہنوں کی کفالت کا بھی ذمہ لیا ہے۔ بہنوں کی شادی کے لیے پیسے ہوں یا بھائی کی تعلیم کا خرچ، سارا بجٹ گومتی نے ہی جمع کیا اور اپنے گھر والوں کو تنہا نہیں چھوڑا۔
کیا کوئی ہے جو لڑکوں کو تعلیم کے لیے ترغیب دلوائے اور انہیں موجودہ دور کے مسابقتی ماحول کے لیے تیار کرے؟ یہ کام کسی حکومت اور ادارہ کا نہیں۔ یہ والدین اور سرپرستوں کی ذمہ داری ہے اور یہ بات تسلیم کرنا ہوگا کہ اس فریضہ کی انجام دہی میں والدین اور سرپرستوں ہر دو سے کوتاہی ہو رہی ہے۔بقول شاعر ؎
قبل اس کے کوئی حساب کرے
آدمی خود ہی احتساب کرے
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com