قتل کیس میں یوگی بری، اعظم خان کو بنا دیا لینڈ مافیا؟

   

امجد خان
اترپردیش میں ڈھائی سال قبل جب بی جے پی قیادت نے اسمبلی انتخابات میں بھاری فرق سے کامیابی کے بعد یوگی ادتیہ ناتھ کو چیف منسٹر بنایا تو مختلف گوشوں نے حکومت اور نظم و نسق کی کارکردگی کے تعلق سے بہت اندیشے ظاہر کئے تھے کیونکہ یوگی کا ٹریک ریکارڈ یو پی جیسی ملک کی سب سے بڑی ریاست کا وزیراعلیٰ بننے کے شایان شان نہیں۔ ڈھائی سال سے یو پی میں سنگھ پریوار، بی جے پی اور چیف منسٹر کی من مانی چل رہی ہے، بلکہ اسے جنگل راج کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ جنگل میں بس طاقتور کا غلبہ رہتا ہے، کمزوروں کو کچل دیا جاتا ہے۔ وہی کچھ یو پی میں ہورہا ہے۔ سیاسی طور پر بی جے پی نہایت مضبوط موقف رکھتی ہے۔ ایک نامزد رکن کے بشمول 404 رکنی اسمبلی میں برسراقتدار ارکان کی تعداد 312 ہے جس میں تنہا بی جے پی کی عددی طاقت 301 ہے۔ بھلا بتائیے، خراب اور مشکوک ماضی کا حامل سربراہ حکومت بن جائے تو حکمرانی کا کیا حال ہوگا۔
چیف منسٹر یوگی نے اپنی آدھی میعاد میں یو پی کیلئے کیا کارنامے انجام دیئے۔ عام آدمی کی زندگی کے معیار میں کیا بہتر فرق لایا گیا، ریاست کے انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کیلئے کیا کیا گیا، بے روزگاری کو دور کرنے کیا اقدامات کئے گئے، جرائم کی روک تھام بالخصوص ریپ کے معاملے اور نت نئے بہانوں سے لنچنگ کے واقعات کے سدباب کیلئے کیا عملی کام ہوئے، پوری ریاست میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال اب تشویشناک کیوں ہے؟ اور نہ جانے کتنے موضوعات ہیں جن پر یوگی حکومت کی کارکردگی کے تعلق سے سوال اٹھائے جاسکتے ہیں۔ اس کے برعکس یوگی حکومت نے جو کیا ہے، وہ ملاحظہ کیجئے۔ شہروں اور مقامات کے نام بدلنے میں جملہ حکمرانی کو ضائع کرنا، انکاؤنٹرز کا بلاتوقف سلسلہ، سیاسی حریفوں کو چن چن کر ہر طرح سے نشانہ بنانا اور کھوکھلے مقدمات میں ماخوذ کرنا، زعفرانی ذہنیت کے عناصر کو کسی بھی جرم کیلئے کھلی چھوٹ، چاہے وہ اپنی بے لگام روش میں کسی اقلیتی فرد کو ہلاک کردیں یا کسی اکثریتی فرد کا قتل کردیں، وہ گرفت سے مستثنیٰ ہیں۔ یو پی میں حکمرانی کا دوغلا پن یا دو معیارات کی تازہ مثال دیکھئے کہ ایک طرف سی ایم یوگی کو 20 سال پرانے قتل کیس میں کلین چٹ دی جاتی ہے، اور دوسری طرف لگ بھگ اتنی ہی قدیم اراضی معاملت میں لینڈ مافیا قرار دیا جاتا ہے۔

اترپردیش کے الہ آباد (موجودہ پریاگ راج) میں اسپیشل ایم پی۔ ایم ایل اے کورٹ نے یوگی ادتیہ ناتھ کے خلاف درج 1999ء کا کیس خارج کردیا ہے۔ یہ کیس ضلع مہاراج گنج میں پولیس کانسٹبل ستیہ پرکاش یادو کے قتل سے متعلق ہے۔ کرائم برانچ، کرائم انوسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ (سی بی۔ سی آئی ڈی) نے کیس کی تحقیقات کی تھی اور اب سی ایم یوگی کو بے قصور قرار دے دیا گیا ہے۔ ستیہ پرکاش جو اُس وقت کے سماج وادی پارٹی لیڈر طلعت عزیز کا پرسنل سکیورٹی آفیسر تھا، اُسے پارٹی کے زیراہتمام احتجاج کے دوران ہلاک کیا گیا تھا۔ مہاراج گنج میں احتجاج کے دوران مبینہ طور پر ادتیہ ناتھ کی قیادت میں ایک گروپ نے احتجاجیوں پر فائرنگ کردی تھی جس میں ستیہ پرکاش مارا گیا۔ سی بی۔ سی آئی ڈی نے اپنی فائنل رپورٹ داخل کی جس میں یوگی کو کلین چٹ دی گئی۔ عدالت نے فائنل رپورٹ کو حق بجانب ٹھہرایا اور خصوصی عدالت نے سی جے ایم کی رپورٹ کی توثیق کرتے ہوئے ادتیہ ناتھ کے خلاف قتل کا کیس خارج کردیا۔

اس کے برخلاف اپوزیشن سماج وادی پارٹی اور خاص طور پر کٹر حریف لیڈر ایس پی رکن لوک سبھا محمد اعظم خان کو اُن ہی کے حلقہ انتخاب رامپور کے اڈمنسٹریشن نے لینڈ مافیا قرار دیا ہے۔ سینئر ایس پی لیڈر پر دباؤ میں شدت پیدا کرتے ہوئے انھیں دھمکانے اور لینڈ گرابنگ کے کئی مقدمات میں ماخوذ کیا گیا۔ رامپور ایم پی پر الزام ہے کہ انھوں نے اکھیلیش کابینہ میں وزیر رہتے ہوئے رامپور میں کسانوں کی اراضی کے وسیع حصوں پر جبراً قبضہ کرلیا تاکہ اپنی باوقار علی جوہر یونیورسٹی پراجکٹ کو روبہ عمل لاسکیں۔
رامپور کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ انجنی کمار نے کہا کہ گورنمنٹ آرڈر کے مطابق جو طاقت کے زور پر لینڈ گرابنگ میں ملوث ہونے کے عادی ہیں، انھیں لینڈ مافیا قرار دیا گیا ہے۔ اُن کے نام حکومت کی نگرانی والے یو پی اینٹی لینڈ مافیا پورٹل میں رجسٹر ہوجاتے ہیں۔ اور اعظم خان کا معاملہ اسی زمرہ میں آتا ہے۔ درحقیقت، گزشتہ ایک ہفتے کے دوران رامپور پولیس نے زائد از دو درجن کسانوں کی شکایات کی اساس پر سلسلہ وار ایف آئی آر اعظم خان اور اُس وقت کے سی او سٹی علی حسن کے خلاف درج کئے ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے کسانوں کی اراضی علی جوہر یونیورسٹی کیلئے دھمکیوں کے ذریعے ہتھیا لی ہے۔ ابھی تک رامپور ایم پی کے خلاف 15 کیس تعزیرات ہند کے سیکشن 342، 384، 447 اور 506 کے تحت درج کئے جاچکے ہیں۔ ایس ایس پی رامپور ڈاکٹر اجئے پال شرما نے کہا کہ اعظم خان کے خلاف درج کیسوں کا تجزیہ تین رکنی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کرے گی اور منصفانہ رپورٹ پیش کی جائے گی جس کی اساس پر رامپور ایم پی کے خلاف اگلی کارروائی کی جائے گی۔

اس معاملے میں اعظم خان نے اپنے خلاف عائد تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے تمام ایف آئی آر کو ’جھوٹ‘ قرار دیا ہے۔ انھوں نے اپنے خلاف پولیس کارروائی کو بی جے پی کی انتقامانہ سیاست کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ اعظم خان نے کہا کہ ان کو برسراقتدار پارٹی آنے والے ضمنی چناؤ کے تناظر میں غیرضروری ہراساں کررہی ہے۔ ’’ہم نے لوک سبھا الیکشن جیتا ہے۔ اب ہم رامپور ضمنی چناؤ بھی جیتیں گے۔‘‘
اعظم خان نے برسراقتدار بی جے پی کو محض چند بیگھا زمین کی خاطر اور تعلیم کے ذریعے سماج کو بیدار کرنے اُن کی کوشش کو روکنے کیلئے سوسائٹی میں دراڑ پیدا کرنے کا مورد الزام ٹھہرایا۔ تاہم، اعظم خان کے خلاف درج کیسوں کا نوٹ لیتے ہوئے ایس پی سربراہ اکھیلیش یادو پہلے ہی 21 رکنی کمیٹی تشکیل دے چکے ہیں۔ قانون ساز کونسل میں اپوزیشن کے لیڈر احمد حسن کی قیادت میں یہ کمیٹی رامپور کے پارٹی ایم پی کے خلاف عائد الزامات کی صداقت کی جانچ کرے گی۔