قرآن مجید، لازوال معجزۂ ربانی مستشرقین کے اعتراض کے تناظر میں

   

نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کو یہ امتیاز اور افتخار حاصل ہے کہ آپ کو عقلی نقلی اور حسی ہر اعتبار سے معجزات رحمت فرمائے گئے ، شریعت اسلامیہ نے نبوت و رسالت کے لئے غور و فکر ، عقل و شعور سے کام لینے کو اساسی اہمیت دی ہے ، اسی لئے معجزات نبویؐ کی عقلی اور حسی صورت انتہائی اہم اور وقیع ہے ۔
قرآن مجید کلام ربانی اور وحی الٰہی ہے ۔ وحی کے لغوی معنی لطیف اور مخفی اشارے ، پیغام (رسالت) دل میں کوئی بات ڈالنے اور چھپاکر بات کرنے اور لکھنے کے ہیں ۔ زیادہ معروف معنی یہ ہیں کہ کسی سے اس طرح مخفی اور پوشیدہ طریقے پر بات چیت کرنا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو ( ابن منظور ، لسان العرب ، بذیل مادہ) اصطلاحی طورپر اس سے مراد اﷲ تعالیٰ کا اپنے کسی پیغمبر کے دل میں براہ راست یا کسی فرشتے کے واسطے سے کوئی بات یا پیغام پہچانا ہے۔
قرآن کریم کی رو سے وحی الٰہی کی عام طورپر درج ذیل صورتیں ہیں :
(۱) اﷲ تعالیٰ کا اپنا پیغام مخفی طریقے سے دل میں ڈالدینا ( وحی) جسے احادیث میں ’’النفث فی الروع‘‘ ( دل میں بات پھونک دینا) کہا گیا ہے ۔
(۲) کسی حجاب سے پیغمبر سے بات چیت کرنا جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایک جھاڑی کے ذریعے بات چیت ہوئی ۔
(۳) فرشتے کے ذریعے اپنا پیغام پہنچانا جس کی پھر دو صورتیں ہوتی ہیں (الف) یہ کہ فرشتہ کسی انسان کی صورت میں نازل ہو اور یہی کئی احادیث طیبہ کامصدر فیض ہے جن میں سے سب سے معروف حدیث جبرئیل ہے۔ (ب) دوسری صورت یہ ہے کہ فرشتہ نظر نہ آئے اور صرف اسکی آواز براہِ راست دل میں اُترتی محسوس ہو ۔ بخاری شریف کی حدیث کے مطابق حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے نزول وحی کی جو صورتیں بیان کیں ہیں ان میں سے اس طریقۂ وحی نبی اکرم ﷺ کے لئے سب سے زیادہ ثقیل بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس طریقے کے مطابق نزولِ وحی کے وقت نبی اکرم ﷺ سردی کے موسم میں بھی پسینے سے شرابور ہوجاتے تھے اور جب اس کا سلسلہ ختم ہوتا تھا تو آپ کے لئے وحی کی تمام باتیں محفوظ ہوچکی ہوتی تھیں ۔ ایسے موقعوں پر آپ کو ایک گھنٹی کی سی آواز ( صلصلۃ الجرس) سنائی دیتی تھیں۔ علاوہ ازیں شب معراج کے موقعہ پر آپ پر بغیر کسی واسطہ کے وحی کا نزول ہوا ۔
سیرت طیبہ کا ہر طالبعلم جانتا ہے کہ آپ ﷺ نے نہ تو اپنے شہر مکہ کے کسی شخص سے تلمذ و استفادہ کیا اور نہ ہی باہر کے کسی عالم سے تعلیم حاصل کی لیکن اس کے باوجود آپ کی ذات سے علم و حکمت کے سوتے پھوٹے ، آپ علم و عرفان اور حکمت و ایقان کا سرچشمہ بنے ۔ آپ کی زبان فیض ترجمان سے ہر طرح کے علوم و فنون نے جنم لیا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ کو بذریعہ وحی ان تمام علوم و فنون سے آگاہ فرمایا تھا ۔ آپ نے خود اس کا اظہار یوں فرمایا ہے : ’’میرے رب نے مجھے علم سکھایا اور خوب سکھایا ‘‘۔
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ یعنی آپ کو وہ علم سکھایا جن کا آپ کو علم نہ تھا ۔ ( النساء : ۱۱۳) چنانچہ دنیا جانتی ہے کہ محض وحی الٰہی کے ذریعے دیا جانے والا عالمگیر اخوت ، دیانت ، شرافت اور نیکی و پارسائی کا آپ کا پیغام ہی آپ کی نبوت و رسالت کی سب سے روشن دلیل ہے ۔
اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کی رسالت و نبوت کی تائید و توثیق کے لئے جو نشانات یا جو آیات بینات نازل فرمائیں ان سب کی عظمت مسلم مگر معجزۂ قرآنی میں جو علمی کمالات و صفات جو جلالت و عظمت اور انسانی دنیا کے لئے جو فوائد و خصائص پوشیدہ ہیں وہ انبیاء علیھم السلام کو عطا ہونے والے معجزات سمیت کسی دوسرے معجزے میں نظر نہیں آتے ۔ سچی بات تو یہ ہے جس طرح خود اﷲ تعالیٰ کی ذات والا صفات بے مثل اور بے مثال ہے اسی طرح اس کا یہ بابرکت کلام جو اُمت محمدیہ کو رحمت عالم ﷺ کے ذریعہ میسر آیا اپنی ذات اور اپنے کمالات و اوصاف میں عدیم النظیراور عدیم المثال ہے ۔ یقینا قرآن کریم نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلم کا سب سے عظیم لافانی اور ابدی معجزہ ہے جو اپنے الفاظ و کلمات اپنے جملوں اور اپنے اسلوب بیان کے اعتبار سے بھی بے مثال ہے اور اپنے مضامین و افکار کی بناء پر بھی دنیا کا سب سے زیادہ محیرالعقول معجزہ اور رہتی دنیا تک انسانوں کے لئے ہدایت و رہنمائی کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے ۔
بعض مستشرقین نے قرآن کریم کو منتشر مضامین و موضوعات کا مجموعہ قرار دیا ہے ، حالانکہ قرآن حکیم کا ایک اپنا مخصوص انداز بیان ہے جسے سمجھنے کے لئے اس کا گہرا مطالعہ ضروری ہے اور قرآن حکیم کا ایک اپنا مخصوص انداز بیان ہے جسے سمجھنے کیلئے اُس کا گہرا مطالعہ ضروری ہے اور قرآن حکیم کا یہی اسلوب اور یہی منہج اس کا عظیم الشان معجزہ ہے ۔ چنانچہ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ قرآنی علوم و معارف پانچ انواع پر منقسم ہیں: علم الاحکام ( زندگی سے متعلقہ مسائل کے احکام) (۲) علم المخاصمۃ ( علم تقابل ادیان ) (۳) علم بایام ﷲ (یعنی مختلف قوموں پر آنے والے عذابوں کے تذکرے سے لوگوں کو وعظ و نصیحت ) (۴) التذکیر بآلاءﷲ ( یعنی اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر کرکے ان کے ذریعے لوگوں کو نصیحت کا بیان ) (۵) علم التذکیر بالموت و ما بعدہٗ ( موت اور اس کے بعد آنے والی زندگی کے تذکرے سے لوگوں کو وعظ و نصیحت کرنا) ۔
(الفوزالکبیر فی اصول التفسیر ص : ۱ تا ۲)
چنانچہ قرآن حکیم اس بات کی رعایت نہیں کرتا کہ اس سورۃ میں یا اس حصے میں صرف فلاں قسم کے مضامین مذکور ہوں گے اور دوسری نوع کے دوسری صورت میں آئیں گے اس کے برعکس ایک ہی سورہ میں یکے بعد دیگرے کئی قسم کے مضامین مذکور ہوتے ہیں ۔ مضامین کے اس تنوع کے باوجود نہ تو مضمون کے تسلسل اور اس کی روانی میں کوئی فرق آتا ہے اور نہ ہی قاری کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب پرانے موضوع کی جگہ نیا موضوع شروع ہورہا ہے حالانکہ اگر کسی دوسری کتاب میں یہ انداز بیان اختیار کیا جائے تو یقینا قاری پر گراں گزریگا۔
موضوع اور مضمون کے تنوع کے ساتھ ساتھ الفاظ و اندازِ بیان بھی بدلتے رہتے ہیں ابھی صیغۂ غائب ہے تو ابھی صیغۂ حاضر اور ابھی صیغۂ متکلم جس سے یقینا معانی قرآن کی لذت دوبالا ہوتی ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی ہر آیت بلکہ ہر سطر میں ایسے ظاہری اور معنوی محاسن پوشیدہ ہیں جنھیں محسوس تو کیاجاسکتا ہے مگر بیان نہیں کیا جاسکتا ، اس کی حلاوت ، شعوری اور ادارکی بھی ہے اور وجدانی بھی ۔
قرآن مجید ایک ایسے کلام کے طورپر دنیا میں موجود ہے جس کا کوئی ثانی و مثیل نہیں اور بار بار کے اعلانات کے باوجود دنیائے کفر اس کی کوئی نظیر اور مثال پیش نہیں کرسکی اور تاقیامت عاجز رہے گی ۔
( معجزات نبوی از ڈاکٹر محمود الحسن عارف )