قرآن مجید ، تعلیمی تحریک و انقلاب کا حقیقی مصدر

   

قرآن مجید میں لفظ ’’علم ‘‘ مختلف اشتقاقی صورتوں میں ۷۷۸ مرتبہ وارد ہوا ہے ۔ ان مواقع پر علم کی دونوں شکلیں مدنظر ہیں ، اول وہ علم جو ذات باری تعالیٰ کی صفت خاص ہے جو ’’علیم ‘‘ ، ’’عالم ‘‘ اور ’’علام ‘‘ وغیرہ صورتوں میں موجود ہے ۔ دوم ، وہ علم جو مخلوق ، خصوصاً انسان کو بھی ارزانی ہوا ہے ۔
قرآن مجید میں اس مادے کے اشتقاقات جس کثرت سے آئے ہیں ان سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ قرآن مجید کی رو سے علم کو غیرمعمولی بلکہ فوق الکل اہمیت حاصل ہے ۔ مغربی حکماء بڑے زمانے تک یہی باور کراتے رہے کہ انسانی علم کے بارے میں اسلام کا رویہ محض نظری اور داخلی ہے ، یعنی عملی و تجرباتی (Empirical) نہیں لیکن یہ خیال درست نہیں ۔ اسلام میں علم کی بڑی غایت جہاں معرفت ذات و صفات باری ہے ، وہاں فلاح و خیر انسان بھی ہے ۔ اس کا ایک مقصد افادہ ہے ۔ یہ تصور قرآن مجید کی آیات سے متشرح ہوتا ہے ۔ علم کامصدر و منبع ( مبدا ) صرف خدا کی ذات ہے اور اسکا علم وسیع اور محیط ہے ، وہ انفس و آفاق کے علم کا مالک اور عالم الغیب و الشہادۃ (غائب و موجود کا عالم ) ہے ، وہ دلوں کی وہ باتیں بھی جانتا ہے جنہیں لوگ چھپاتے ہیں۔ زمینوں اور آسمانوں کے اسرار اور بروبحر میں چھپی ہوئی جتنی حکمتیں ہیں خدا کا علم ان سب پر محیط ہے اور غیب کی کنجیاں اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ جو کچھ آنے والا ہے وہ اسے بھی جانتا ہے اور قیامت اور مابعد القیامت کا علم اسی کو ہے ۔
انسان جو علم حاصل کرتا ہے وہ بھی اﷲ تعالیٰ نے دیا ہے اور اس کی حقیقت اس کے نتائج اور اس کے مضمرات کا صحیح علم بھی اسی کو ہے۔ انسان کو جو علم حاصل ہوا ہے وہ عطائی بھی ہے اور اکتسابی بھی مگر منبع ہر حال میں خدا کی ذات ہی ہے ۔

اﷲ تعالیٰ نے انسان کو انبیاء کے ذریعہ علم بھی دیا ہے اور حکمت بھی عطا کی ہے ۔ خدا علیم بھی ہے اور حکیم بھی ، تو اس سے مراد یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ ہر شئے کا علم رکھنے کے علاوہ اس کے جملہ اسباب اور اس کے متعلق جملہ منافع و خواص اور تاثرات اور اس کے عملی نتائج سے بھی باخبر ہے اور انہیں بروئے کار لانے والا بھی ہے ۔ بعض انبیاء علیھم السلام کے سلسلہ میں خدا کی طرف سے حکمت اور علم کے عطا ہونے کا ذکر آیا ہے ۔ اس طرح علم کا حکمت سے رابطہ پیدا کرکے اسے نظام تمدن کی اساس بنادیا ہے چنانچہ معاش و سیاست اور ریاست کے لئے جہاں علم کا ہونا ضروری ہے وہاں حکمت یا تدبیرکار کا جاننا بھی لازم ہے ۔ چونکہ انسان کو ’’تخلقوا باخلاق ﷲ ‘‘ (اﷲ تعالیٰ کے صفات کا حامل ہونے ) کا حکم ہے اس لئے ایک لحاظ سے انسان کے لئے اصول ہدایت بھی یہی ہے کہ علم کے ساتھ عمل ،تدبیر اور تنظیم کا علم بھی ہو ۔ چنانچہ انسان باوجود یکہ وہ ضعیف و ناتواں ہے تاہم اپنی محدود حد تک انسانی علم و حکمت کی اساس پر مفید علمی نتائج حاصل کرسکتا ہے ۔
اسی طرح ’’علیم ‘‘ کے ساتھ ’’واسع ‘‘، ’’حفیظ ‘‘، ’’سمیع‘‘ اور ’’عزیز‘‘ جیسی صفات سے علم الٰہی کی جہتیں اور وسعتیں ظاہر ہوتی ہیں ، جنھیں کارخانۂ عالم کی تنظیم کے لئے اپنی مشیت اور قانون کے تحت استعمال کرتا ہے ۔

قرآن مجید میں علم کے ساتھ ’’رحمۃ ‘‘ کا لفظ بھی آیا ہے ۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ علم خدا کی طرف سے ایک رحمت ہے اور رحمت کائنات اور انسان کے جملہ مصالح و معاملات میں نظم اور ارتباط پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس میں خدا کی صفت ربوبیت بھی شامل ہے ۔ اس میں ایک لحاظ سے انسان کے لئے بھی رہنمائی ہے کہ وہ علم جو انسان کے لئے وسیلۂ خیر و فلاح و ارتقاء نہیں بنتا ناقص ہوگا ۔
علم کے ساتھ ’’ھدیٰ ‘‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں ۔ اس سے دنیا اور آخرت کی کامل رہنمائی مقصود ہے ۔ اس میں فوز و فلاح اور سعادت انسانی کی ترغیب ہے مگر ہدایت کا لفظ کئی معانی کا حامل ہے ، کہیں محض رہنمائی ہے ۔ کہیں رہنمائی کے ساتھ ذرائع و وسائل کی نشاندہی بھی ہے۔ یہ ہدایت دنیوی بھی ہے اور دینی بھی ، الہامی و وجدانی بھی ہے اور عقلی بھی اور تجرباتی بھی ۔ غرض صحیح غایتوں اور نتیجوں تک پہنچنے کے لئے جس جس رہنمائی کی ضرورت ہے وہ مدنظر ہے ۔ اکثر موقعوں پر یقین اور ادراک حقیقت اور صحیح نتیجے تک پہنچنے اور اس سے سبق حاصل کرنے کو علم و ہدایت بتایا گیاہے ۔

قرآن مجید میں آیاہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو ’’بیان ‘‘ سکھایا ہے ۔ اس سے جملہ بیانی اظہارات کی رہنمائی ہوتی ہے نیز قرآن مجید کو بھی ’’بَيَانٌ لِّلنَّاسِ‘‘ (انسانیت کے لئے توضیح و بیان کا ذریعہ ) قرار دیا گیا جس کے معنی یہ ہوئے کہ ’’بیان ‘‘ علم و حکمت کا ذریعہ ہے ۔
جب قرآن مجید میں مختلف آیات کے ساتھ ’’یَتَدَبَّرُوْنَ ، يَتَفَكَّـرُوْنَ ، يَعْقِلُوْنَاور تَعْقِلُوْنَ جیسے افعال آتے ہیں تو ان سے علم کے بعد کی منزلیں مثلاً تدبر ، تفکر ، تجزیہ اور تجربہ اور انہی عقلی اور تجرباتی کاوشوں سے وجود میں آنے والے علوم و معارف مراد ہوتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ نے نفوس کے اسرار اور ان کے اندر مخفی مضمرات ، خیر و شر کا ذکر فرمایا ہے ، اس سے علم النفس کی تحقیق کی ترغیب ہوتی ہے ، جس سے علم احوال النفس یا ماھیۃ النفس یا تشخیص و طب روحانی کہا گیا ہے ۔
قرآن مجید میں اقوام سابقہ کی تاریخ کا علم بھی علم کا ایک حصہ ہے اور اس کے تحت سیاحت عالم (بغرض مشاہدہ و عبرت ) اور اس سے ہدایت کے راستوں کی جستجو کی جو ترغیب ہوتی ہے وہ قرآن مجید کے مطالعہ اور اس کی آیات پر تدبیر کرنے سے ہی پیدا ہوتی ہیں۔
ان سب تفصیلات سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ مسلمانوں میں علم کی تحریک ان کے اس دینی منبع یعنی قرآن مجید سے پیدا ہوتی ہے اور وہ انہیں راستوں پر آگے بڑھی جو مسلمانوں نے مطالعۂ قرآنی اور احکام الٰہی کی پیروی میں اختیار کی ۔ چنانچہ دینی علوم کے علاوہ مختلف دوسرے علوم مثلاً جغرافیہ ، تاریخ ، رجال ، تذکرہ اور نظری و تجربی علم مثلاً سائنس و ریاضیات ، نیز علم الاشیاء مثلاً طبیعیات و فلکیات وغیرہ اسی رہنمائی کی رہین منت ہے ۔
( ماخوذ از اردو دائرۃ المعارف جلد ۱۳، مادہ : علم )