بیشک مہینوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے نزدیک بارہ ماہ ہے کتاب الٰہی میں جس روز سے اس نے پیدا فرمایا آسمانوں اور زمین کو،ان میں سے چار عزت والے ہیں۔ یہی دین قیم ہے پس نہ ظلم کرو ان مہینوں میں اپنے آپ پر اور جنگ کرو تمام مشرکوں سے جس طرح وہ سب تم سے جنگ کرتے ہیں اور خوب جان لو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔(سورۃ التوبہ : ۳۶)
بارہ قمری مہینوں میں سال کی یہ تقسیم کسی انسان کا فعل نہیں تاکہ اس میں ردوبدل کی گنجائش ہو بلکہ خالق ارض و سما نے یہ محکم نظام روزازل سے قائم فرمایا ہے۔ اس میں کوئی اپنی خواہش اور مصلحت کے پیش نظر تبدیلی نہیں کرسکتا۔ ان بارہ مہینوں سے چار ماہ رجب، ذیقعد، ذی الحجہ اور محرم حرمت والے مہینے ہیں۔ ان میں ہر طرح کا فتنہ و فساد اور جنگ و قتال قطعاً ممنوع ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی اہل عرب ان مہینوں کا بڑا احترام کیا کرتے تھے اور اگر اپنے باپ کا قاتل بھی اُنہیں مل جاتا تو اسے بھی کچھ نہ کہتے۔ کتاب اللہ سے مراد یا تو لوح محفوظ ہے یا قرآن حکیم۔ یہی محکم شریعت ہے یا سال کی تقسیم کا یہی صحیح حساب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شرعی احکام کی بجا آوری میں انہیں قمری مہینوں کا اعتبار ہوگا۔ احکام الٰہی سے سرتابی ہروقت بری ہے۔ لیکن ان حرمت والے مہینوں میں نافرمانی بہت ہی قبیح ہے۔ اس لیے خصوصی طور پر ان مہینوں میں نافرمانی سے باز رہنے کی تاکید فرمائی۔ نیز جس طرح مقدس مقامات اور اوقات میں نافرمانی کی سزا بھی زیادہ ہوتی ہے اور طبیعت انسانی پر اس کی نحوست کا اثر بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اگر مشرک ان مہینوں کے احترام کو پس پشت ڈال دیں اور تم سے جنگ کرنے پر آمادہ ہو جائیں تو تم بھی متفق اور متحد ہوکر ان کے سامنے صف بستہ ہو جاؤ۔