بہت ہی مہربان۔ ہمیشہ رحم فرمانے والا۔ مالک ہے جزا کا ۔ (سورۃ الفاتحہ ۔۲۔۳)
دین کا معنی ہے حساب اور جزاء۔ لبید کہتا ہے ’’ثواب وعذاب کی تعبیر لفظ ’’دین‘‘ سے کی تاکہ پتہ چلے کہ یہ ثواب وعذاب بلاوجہ نہیں بلکہ ان کے اپنے اعمال کا طبعی ثمر ہے جس سے مضر نہیں‘‘۔ مقصد یہ ہے کہ انسان گناہوں کی لذت میں کھو کر ان برے نتائج سے بےخبر نہ ہوجائے جو رونما ہو کر رہیں گے ۔ اپنی عمر ناپائیدار اور اس کی فنا پذیر راحتوں اور عزتوں پر مغرور ہوکر اس دن کو نہ بھول بیٹھے جب کہ انصاف کے ترازو میں اس کا ہر چھوٹا بڑا نیک وبدعمل تو لا جائے گا۔ اس میں شک نہیں کہ وہ رب ہے۔ اس میں کلام نہیں کہ اس کی رحمت بےپایاں ہے ۔ لیکن اس کی یہ صفت کمال بھی ہر وقت پیش نظر رہے کہ وہ عادل ہے ۔ حق تو یہ ہے کہ عدل کے بغیر اس کی صفات ربوبیت ورحمت کا کامل ظہور ہو ہی نہیں سکتا۔ کان کھول کر سن لو وہ دن آنے والا ہے جب سطوت وجبروت کے سب موہوم پیکر مٹ جائیں گے۔ اکڑی ہوئی سب گردنیں جھک جائیں گی۔ ظاہر وباطن میں اِسی کی فرمانروائی ہوگی جو حقیقی فرماں روا ہے۔کتنی افسوسناک حقیقت ہے کہ وہ اُمت جس کے دین کے بنیادی عقائد میں روز جزاء پر ایمان لانا ہے۔ میدان عمل میں اس کی غالب اکثریت میں اس ایمان کا کوئی اثر محسوس نہیں کیا جاتا۔ وہ روز حساب اور مکافات عمل کے قانون سے یوں غافل ہیں گویا کسی نے انہیں یہ بات بتائی ہی نہیں۔