قران

   

یقیناً اللہ نے خرید لی ہے ایمانداروں سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس عو ض میں کہ ان کے لئے جنت ہے… (سورۃ التوبہ :۱۱۱)
ہماری جانیں اسی نے پیدا فرمائیں۔ ہمارے پاس جو کچھ ہے سب اسی کا دیا ہوا ہے۔ گویا ہماری جانوں اور اموال کا مالک حقیقی وہ خود ہی ہے۔ اس لیے وہ اگر ہر چیز یونہی لے لے تو کسی کو دم مارنے کی کیا مجال۔ لیکن اس کی شان بندہ پروری ملاحظہ ہو کہ اپنی چیزوں کا ہمیں مالک قرار دیا اور پھر اس فانی زندگی اور ناپائیدار متاع دنیا کا خود خریدار بنا اور قیمت اتنی گراں عطا فرمائی جس کا انسان تصور ہی نہیں کر سکتا یعنی جنت۔ جب ستر انصار مکہ میں آئے اور رات کو تنہائی میں حضور کریم ﷺکے دست مبارک پر وہ تاریخی بیعت کی جسے بیعت عقبہ ثانیہ کہا جاتا ہے تو اس وقت حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓنے عرض کی اے اللہ کے نبی! جو شرط آپ اپنے رب کے لیے اور اپنی ذات کے لیے ہم سے منوانا چاہتے ہیں منوا لیجئے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے لیے تو یہ شرط ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ۔ اور اپنے لیے یہ شرط ہے کہ جس چیز سے تم اپنے جان و مال کی حفاظت کرتے ہو اس سے میری حفاظت کرو۔ انصار نے عرض کی کہ اگر یہ شرطیں ہم نے پوری کر دیں تو ہمیں کیا ملے گا۔ فرمایا جنت۔ اس وقت خوشی سے ان کے دل باغ باغ ہوگئے اور کہنے لگے یہ سودا تو بڑا نفع مند ہے۔ اب ہم اس سودے کو نہ خود توڑ یں گے اور نہ اس کو توڑنے کی آپ سے خواہش کرینگے۔ اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ اس خرید و فروخت کا یہ مطلب نہیں کہ ابھی سے تمہاری جانیں قبض کر لی جائیں اور تمہارے مال و اسباب کو بھی اپنے قبضہ میں لے لیا جائے جیسے عام طور پر خریدار ا خرید کر دہ چیز کو اپنے قبضہ میں لے لیتا ہے بلکہ اس کا مدعا یہ ہے کہ جب مالی قربانی کا موقع آئے تو تم بلاتامل اپنی عمر بھر کا اندوختہ پیش کردو۔