قرآن مجید کا اصل نسخہ ازل سے محفوظ

   

حافظ محمد ایوب احمد انصاری
سورہ ٔبروج میں ارشاد الٰہی ہے ’’یہ قرآن مجید ہے لوح محفوظ میں‘‘، گویا قرآن مجید ازل سے لوح محفوظ میں موجود ہے۔ وہاں سے اس کا نزول دو مرحلوں سے ہوا ہے۔ نزول کے لئے قرآن میں دو لفظ استعمال کئے گئے ہیں۔ ایک انزال دوسرا تنزیل۔ انزال سے مراد ہے کہ کسی شئی کو یکبارگی مکمل طور پر نازل کرنا، تنزیل کے معنی تھوڑا تھوڑا نازل کرنا ہے۔ لہذا ’’ اِنَّـآ اَنْزَلْنَاهُ فِىْ لَيْلَـةٍ مُّبَارَكَةٍ ۚ‘‘ (الدخان : ۲) بلاشبہ ہم نے اس کو مبارک رات میں اُتارا اور ’’ اِنَّـآ اَنْزَلْنَاهُ فِىْ لَيْلَـةِ الْقَدْرِ‘‘ بلاشبہ ہم نے اس کو لیلۃ القدر میں نازل کیا، کا مفہوم یہ ہے کہ شب قدر میں پورا قرآن مجید لوح محفوظ میں آسمان دنیا کے بیت العزۃ و بیت المعمور جو خانہ کعبہ کے محاذات میں آسمان پر فرشتوں کی عبادت گاہ ہے) پر نازل کیا گیا۔ اس کے تدریجی نزول کا آغاز بھی صحیح قول کے مطابق لیلۃ القدر سے اس وقت ہوا جب نبی آخرالزماں ﷺ کی عمر عزیز چالیس برس کی ہوچکی تھی۔ معلوم ہوا کہ قرآن مجید کا اصل نسخہ لوح محفوظ میں ازل سے محفوظ ہے۔ جبکہ اس کی ایک کاپی آسمان دنیا کے بیت المعمور میں بھی محفوظ ہے اور تیسرا مقام یہ ہے کہ بیت المعمور سے وہ مسلسل اور بتدریج ۲۳ برس تک آنحضرت ﷺکے قلب سے ہوتا ہوا مسلمانانِ عالم کے قلوب میں ہمیشہ کیلئے نقش کردیا گیا۔صحیح قول کے مطابق رسالت مآب ﷺ پر سب سے پہلے سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیاتِ کریمہ کا نزول ہوا۔ امام بخاریؒ نے اپنی کتاب میں اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سند سے اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ نبی کریم علیہ السلام پر ابتداء میں سچے خوابوں کا سلسلہ جاری رہا۔ کوئی خواب نہیں دیکھتے تھے مگر وہ اپنی تعبیر میں اس درجہ روشن اور صحیح ثابت ہوتا تھا جیسا کہ طلوع صبح کیلئے سپیدہ صبح کا ظہور ہوتا ہے۔ پھر آپ ﷺ کو خلوت محبوب ہوگئی۔ اور غارِ حرا میں مصروفِ عبادت رہنے لگے۔ گاہے گاہے آپ ﷺ اہل و عیال کے پاس تشریف لے آتے تھے۔ اُم المؤمنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کیلئے کچھ توشہ تیار کرتیں اور آپ ﷺاس کو لے کر پھر غار میں واپس استغراق و عبادت میں مشغول ہوجاتے کہ اچانک ایک روز آپ ﷺ پر اللہ کا فرشتہ نمودار ہوا اور کہنے لگے ’’اقراء‘‘ (پڑھئے) نبی اُمی علیہ السلام نے کہا میں پڑھنا نہیں جانتا۔ حضور رحمۃ اللعالمین ﷺ ارشاد فرماتے تھے کہ جب میں نے فرشتہ سے یہ کہا تو اس نے مجھے گرفت میں لے لیا جس کی شدت سے مجھ کو تکلیف ہونے لگی اور پھر اس نے چھوڑ کر مجھ سے دوبارہ کہا پڑھئے اور میں نے وہی جواب دیا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا۔ تب اس نے پھر وہی عمل کیا اور گرفت چھوڑ کر تیسری مرتبہ پھر پہلا جملہ دہرایا اور میں نے بھی وہی سابق جواب دیا۔ اور یہی عمل ہونے کے بعد چوتھی مرتبہ سورۂ علق کی ابتدائی پانچ آیاتِ کریمہ کی تلاوت کی: اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّـذِىْ خَلَقَ o خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ o اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْـرَمُ o اَلَّذِىْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ oعَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْo ’’پڑھو اپنے پروردگار کے نام سے جس نے انسان کو منجمد خون سے پیدا کیا۔ پڑھو اور تمہارا رب سب سے کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا انسان کو وہ سب کچھ سکھایا جس سے وہ ناواقف تھا‘‘۔ اشارہ یہ مقصود تھا کہ جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا وہ دوسرے طریق سے بھی علم سکھانے پر قادر ہے۔ غرض حضور صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے ان آیات کو دہرایا اور یہ آپ ﷺ کے ذہن نشین ہوگئیں۔