محمد نجیب قاسمی
اگر کوئی شخص کسی خاص ضرورت کی وجہ سے قرض مانگتا ہے تو قرض دے کر اس کی مدد کرنا باعث اجروثواب ہے، جیساکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء کرام نے تحریر کیاہے کہ ضرورت کے وقت قرض مانگنا جائز ہے اور اگر کوئی شخص قرض کا طالب ہو تو اس کو قرض دینا مستحب ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ نے قرض دے کر کسی کی مدد کرنے میں دنیا وآخرت کے بہترین بدلہ کی ترغیب دی ہے، لیکن قرض دینے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرض کی مقدار سے زیادہ لینے کی کوئی شرط نہ لگائے۔ قرض لیتے اور دیتے وقت اُن احکام کی پابندی کرنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ نے سورہ ٔبقرہ ۔آیت نمبر ۲۸۲ میں بیان کئے ہیں، اُن احکام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بعد میں کسی طرح کا کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔ اُن احکام میں سے تین اہم احکام اس طرح ہیں:
۱) اگر کسی شخص کو قرض دیا جائے تو اس کو تحریری شکل میں لایاجائے، خواہ قرض کی مقدار کم ہی کیوں نہ ہو۔
۲) قرض کی ادائیگی کی تاریخ بھی متعین کرلی جائے۔
۳) دو گواہ بھی طے کرلئے جائیں۔
قرض لینے والے کیلئے ضروری ہے کہ وہ ہر ممکن کوشش کرکے وقت پر قرض کی ادائیگی کرے۔ اگر متعین وقت پر قرض کی ادائیگی ممکن نہیں ہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے قرض دینے والے سے قرض کی ادائیگی کی تاریخ سے مناسب وقت سے قبل مزید مہلت مانگے۔ مہلت دینے پر قرض دینے والے کو اللہ تعالیٰ اجرعظیم عطا فرمائے گا۔ لیکن جو حضرات قرض کی ادائیگی پر قدرت رکھنے کے باوجود قرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں، ان کیلئے نبی اکرم ﷺکے ارشادات میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں، حتی کہ آپ ﷺ ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھانے سے منع فرمادیتے تھے جس پر قرض ہو یہاں تک کہ اس کے قرض کو ادا کردیا جائے۔
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: مسلمان کی جان اپنے قرض کیوجہ سے معلق رہتی ہے (یعنی جنت کے دخول سے روک دی جاتی ہے) یہاں تک کہ اس کے قرض کی ادائیگی کردی جائے۔
(ترمذی، مسند احمد، ابن ماجہ)
رسول اللہ ﷺنے ایک روز فجر کی نماز پڑھانے کے بعد ارشاد فرمایا: تمہارا ایک ساتھی قرض کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے جنت کے دروازہ پر روک دیا گیاہے۔ اگر تم چاہو تو اس کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرف جانے دو ، اور چاہو تو اسے (اس کے قرض کی ادائیگی کرکے) عذاب سے بچالو۔ (الترغیب والترھیب)
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ شہید کے تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے مگر کسی کا قرضہ معاف نہیں کرتا۔ (مسلم)
رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی سے اس نیت سے قرض لے کہ وہ اس کو ادا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے قرض کی ادائیگی کیلئے آسانی پیدا کرتا ہے اور اگر قرض لیتے وقت اس کا ارادہ ہڑپ کرنے کا ہے تو اللہ تعالیٰ اسی طرح کے اسباب پیدا کرتا ہے جس سے وہ مال ہی برباد ہوجاتا ہے۔ (بخاری)رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: جس شخص کا انتقال ہوا ایسے وقت میں کہ وہ مقروض ہے تو اس کی نیکیوں سے قرض کی ادائیگی کی جائے گی۔ (ہاں اگر کوئی شخص اس کے انتقال کے بعد اس کے قرض کی ادائیگی کردے تو پھر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا، ان شاء اللہ)۔ (ابن ماجہ)رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: قرض کی ادائیگی پر قدرت کے باوجود وقت پر قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ (بخاری ، مسلم)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص کاانتقال ہوا، ہم نے غسل وکفن سے فراغت کے بعد رسول اکرم ﷺسے نماز پڑھانے کو کہا۔ آپ ﷺنے پوچھا کہ کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ ہم نے کہا کہ اس پر ۲ دینار کا قرض ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : پھر تم ہی اس کی نماز جنازہ پڑھو۔ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! اس کا قرض میں نے اپنے اوپر لیا۔ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : وہ قرضہ تمہارے اوپر ہوگیا اور میت بری ہوگیا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اس شخص کی نماز جنازہ پڑھائی۔
(رواہ احمد۔الترغیب والترھیب ۲/۱۶۸)
قرض کی ادائیگی کی آسانی کیلئے حضور ؐ کی دعا:
ایک روز آپ ﷺمسجد میں تشریف لائے تو حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ آپ ﷺنے حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نماز کے وقت کے علاوہ مسجد میں موجود ہونے کی کیا وجہ ہے ؟ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ غم اور قرضوں نے گھیر رکھا ہے۔ آپ ﷺنے فرمایا: کیا میں نے تمہیں ایک دعا نہیں سکھائی کہ جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ تمہارے غموں کو دور کرے گا اور تمہارے قرضوں کی ادائیگی کے انتظام فرمائے گا؟ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے کہا : کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ ﷺنے فرمایا: اے ابوامامہ ! اس دعا کو صبح وشام پڑھا کرو۔ وہ دعا یہ ہے:
اَللّٰهمَّ اِنِّی اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحُزْنِ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسْلِ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّينِ وَقَهْرِ الرِّجَالِ
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس دعا کا اہتمام کیا تواللہ تعالیٰ نے میرے سارے غم دور کردئے اور تمام قرض ادا ہوگئے۔ (ابوداود)