قطر اور ترکی کے بجائے لبنان کا جھکاؤ فرانس کی سمت کیوں ؟

,

   

بیروت۔لبنان 4 اگست کو زور دار دھماکے کے نتیجے میں بیروت کی تباہ شدہ بندرگاہ کی تعمیرِنو کے لئے صرف فرانس کی پیش کش کو قبول کرسکتا ہے۔ لبنان کو قطر ، ترکی ، چین اور بعض دوسرے ممالک نے بندرگاہ کی تعمیرنو کے لیے معاونت کی پیش کش کی ہے لیکن لبنانی ذرائع کے مطابق لبنان کا جھکاؤ فرانس کی جانب ہے۔امریکہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار بھی جمعرات کی شب بیروت پہنچ رہے ہیں۔قبل ازیں لبنانی حکام نے کہا ہے کہ ان سے اسرائیل کے ساتھ سرحد کی حدبندی کے مسئلے پر بات چیت کی جائے گی۔اب دو لبنانی ذرائع نے کہا ہے کہ امریکی محکمہ خارجہ کے انڈرسیکریٹری برائے سیاسی امور ڈیوڈ ہیل بیروت کی تباہ شدہ بندرگاہ کی تعمیرِنو کے معاملے پر بھی بات چیت کریں گے۔بیروت کی مرکزی بندرگاہ کی تباہی کے بعد اب لبنان طرابلس میں واقع اپنی دوسری بڑی بندرگاہ کو استعمال کررہا ہے اور مال بردار جہاز وہیں لنگرانداز ہورہا ہے۔اس کے علاوہ لبنان کے جنوب میں بعض چھوٹی بندرگاہیں واقع ہیں۔ لبنان کے سرکاری ذرائع نے کہا ہے کہ فرانس بیروت کی بندرگاہ کی تعمیرنو کے منصوبے پر کام کرے گا۔اس بندرگاہ کی تعمیرنو کے کام میں دلچسپی کا اظہار کرنے والے دو ممالک قطر اور ترکی کے عرب اور خلیجی ریاستوں سے تعلقات کشیدہ ہیں جبکہ چین کے امریکہ کے ساتھ روزبروز بگڑتے ہوئے تعلقات کے پیش نظر لبنان کے لیے فرانس ہی ایک بہتر مددگار ملک ثابت ہوسکتا ہے اور توقع ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات سے مل کر اس تعمیراتی منصوبے پر کام کرے گا۔ایک اور لبنانی ذریعے نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب تک لبنان میں اس بات پر اتفاق رائے ہوا ہے اور یہ بات ہمارے بھی مفاد میں ہے کہ ہم فرانس کے ساتھ مل کر کام کریں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے امریکہ بھی نالاں نہیں ہوگا۔انھوں نے مزید کہا کہ اگر ہم چینیوں کے ساتھ جاتے ہیں تو پھر امریکہ لبنان کے خلاف دباؤ کی مہم جاری رکھے گا۔جہاں تک ترکی اور قطر کا تعلق ہے تو ان دونوں ممالک کے الاخوان المسلمون سے تعلقات اور عربوں سے مخاصمت کسی بھی طور لبنان کی مدد نہیں کرے گی۔