قلبی امراض کا عالمی خاتمہ کیوں نہیں ہورہا ہے

,

   

نئی دہلی۔ہندوستان میں قلبی امراض کے علاج میں ناکامی کی وجوہات میں سے ایک تاخیر سے تشخیص ہے۔بیشتر مریض ایسے وقت میں علاج کے لئے آتے ہیں اب مرض بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

ماہرقلبی امراض کا کہنا ہے کہ لوگوں کی مسلسل اسکریننگ‘ جس میں پہلے سے موجودقلبی امراض‘ قلب پر حملے کے ماضی کی تاریخ‘ ہائی بلڈ پریشر اور ضیابطیس جیسی امراض کی مسلسل تشخیص سے ابتدائی معاملات میں مرض کی شناخت میں مدد ہوسکتا ہے اور اس سے اموات میں بھی کمی ممکن ہے

۔ڈاکٹر سندیپ سیٹھ کے مطابق جو اے ائی ائی ایم ایس میں کارڈیالوجسٹ پروفیسر ہیں کے مطابق تاخیر سے قلبی امراض کے علاج کرنے والوں میں پچاس فیصد ایسے ہیں جو ایک سال کے اندر فوت ہوجاتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ”مریض اکثر ادوایات کی پابندی نہیں کرتے اور طرز زندگی میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے جو امراض کو فروغ پانے سے روک دیتا ہے۔

اس کی وجہہ سے اموات زیادہ ہوتی ہیں“۔ اے ائی ائی ایم ایس کی جانب سے قلب کی ناکامی کا کلینک چلایاجارہا ہے۔

یہاں پر ڈاکٹرس نے ہارٹ فلیر نرسوں کا تقرر عمل میں لایاہے جو مذکورہ مرض میں مبتلا مریضوں کے لواحقین کو وقت پر ادویات لینے کی اہمیت بتاتے ہیں‘ کم سیال او رمحدود نمک کے استعمال کے فوائد سمجھاتے ہیں اور ہر روز ورزش کے متعلق سمجھاتے ہیں۔

فورٹیس ایکسورٹ ہارٹ انسٹیٹیوٹ (ایف ای ایچ ائی) کی سینئر کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر اپارناجیسوال نے کہاکہ قلب کے ناکارہ ہونے سے زندگی ختم نہیں ہوجاتی۔

انہوں نے کہاکہ ”ایسے بہت سارے مریض ہیں جو قلب کے ناکارہ ہونے کے باوجود ادوایات کے ذریعہ عام زندگی گذار رہے ہیں“۔

میکس سوپر اسپشالیٹی اسپتال کے کارڈیالوجی چیرمن ڈی کے کے تلوار نے کہاکہ ”ان دنوں ہمارے پاس اونچا معیاتی مشین جیسے ایل وی اے ڈی ہے جو مشین قلبی افعال کی نقل کرتا ہے“۔

اسکا استعمال منتقلی کی تیار ی میں کیاجاسکتا ہے جو قلب امراضی کے قطعی لازمی علاج ہے“۔

انہوں نے مزیدکہاکہ مغربی ممالک جیسے امریکہ کے تقابل میں کم عمر میں ہندوستانی مریض ناکارہ قلب کے امراض کی وجہہ سے کم عمری میں ختم ہورہے ہیں