قوانین کا استحصال ‘ سدباب ضروری

   

ملک میں جو قوانین بنائے جاتے ہیںوہ زیادتیوں اور مظالم کی رو ک تھام کیلئے ہوتے ہیں۔ غیر قانونی حرکتوں اور کامو ں سے عوام کو بچانے کیلئے یہ قوانین بنائے جاتے ہیں اور ان کا مقصد سماج میں مساوات کو فروغ دینا اور کسی کے بھی استحصال کو روکنا ہوتا ہے تاہم کچھ قوانین ایسے ہیںجو کسی مخصوص طبقہ کی حفاظت اور ان کی بہتری کیلئے بنائے گئے تھے لیکن اب ان کا استحصال کرتے ہوئے دوسروں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ دراز ہوگیا ہے ۔ ان قوانین کا غلط اور بیجا سہارا لیتے ہوئے ہراسانی کی جا رہی ہے ۔ ملک میں خواتین کو شوہروں کی جانب سے ہراساں کئے جانے کے واقعات سے بچانے کیلئے قوانین بنائے گئے تھے ۔ ان کے ذریعہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان قوانین کا انتہائی بیجا استعمال کرتے ہوئے مردوں کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔ ان قوانین کا بیجا سہارا لیتے ہوئے لوٹ مچائی جا رہی ہے اور شوہروں کو دھمکانے جیسے واقعات پیش آ نے لگے ہیں۔ ویسے تو ان قوانین کے بیجا استعمال کا سلسلہ بہت پہلے سے شروع ہوچکا تھا اور شائد یہی وجہ تھی کہ ان قوانین کے اطلاق میں احتیاط سے کام لیا جا رہا تھا ۔ تاہم حالیہ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ سارے ملک میں اس طرح کے واقعات پیش آ رہے ہیں جہاں ان قوانین کا سہارا لیتے ہوئے استحصال کیا جا رہا ہے ۔ لاکھوں روپئے لوٹے جا رہے ہیں اور من مانی انداز میں جس کسی کو چاہے مقدمات میں پھانسنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ حالیہ واقعات میں دو افراد نے اس طرح کے حالات کا شکار ہونے کے بعد خود کشی کرلی ہے اورا س کیلئے انہوں نے اپنی بیویوں کو ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کی ہے ۔ دونوںواقعات میں یکسانیت بھی دکھائی دیتی ہے اور قوانین کے استحصال کے ذریعہ دو افراد کی جان چلی گئی ہے ۔ ایسے واقعات سماج میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں کیونکہ اس کا سلسلہ روکا جانا چاہئے اور کسی کو بھی قوانین کا سہارا لیتے ہوئے کسی کو نشانہ بنانے یا اس حد تک لیجانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے کہ وہ اپنی زندگیوں کا ہی خاتمہ کرلیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اس طرح کے واقعات یکا دوکا ہی کہے جاسکتے ہیں اور خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنے اور ان کی بہتری کیلئے قوانین ملک میں ہونے ہی چاہئیںتاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے ذریعہ سے کسی کو ہراساں کرنے کی گنجائش باقی نہ رہے ۔ نفاذ قانون کی جو ایجنسیاں ہوتی ہیں جو پولیس فورس ہوتی ہے اس کو تمام حالات کو سمجھنے اور جائزہ لے کر ضروری کارروائی کرنے کی ذمہ داری نبھانی چاہئے ۔ محض کسی کی شکایت پر کسی کے خلاف من مانی انداز میں کارروائی کرنے یا مقدمات درج کرتے ہوئے سماج میں رسواء کرنے کی روایت کو ختم کیا جانا چاہئے ۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ قوانین سماج کی بہتری اور سماج میں توازن پیدا کرنے کیلئے ہوتے ہیں۔ ان کے استحصال کی گنجائش نہیںہونی چاہئے اور استحصال کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی گنجائش فراہم کی جانی چاہئے ۔ قوانین کا بیجا استعمال ان قوانین کی اہمیت و افادیت ہی کو ختم کرسکتا ہے اور اس کے نتیجہ میں جن کو قانون کی مدد ملنی چاہئے وہ ملنے سے رہ جاتی ہے ۔ ایک ذمہ دار سماج میں قوانین کا اطلاق بھی ذمہ داری کے ساتھ ہونا چاہئے ۔ شکایت کنندہ کے مقاصد اور منشاء کو سمجھنے اور اس کے مطابق کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کسی شکایت کے ذریعہ کسی کو اپنی جان گنوانے کیلئے مجبور کرنا خود قانون کے مغائر اقدام کہا جاسکتا ہے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف خود مقدمات درج کرنے اور انہیں کیفر کردار تک پہونچانے کی گنجائش پہلے ہی سے موجود ہے ۔
حالانکہ ابھی یہ ایکا دوکا واقعات ہی ہیں لیکن ابھی سے اس تعلق سے سدباب کیلئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ اس طرح کے معاملات کو ایک روایت بننے کا موقع نہیں دیا جانا چاہئے اور نہ ہی آئندہ کسی کو ان قوانین کے استحصال کی گنجائش باقی رکھی جانی چاہئے ۔ سماج میں اس تعلق سے شعور بیدار کرنے کیلئے بھی اقدامات کئے جانے چاہئیں ۔ نفاذ قانون کے ذمہ داروں کو بھی اس تعلق سے ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی ضرورت ہے تاکہ سماج میں قوانین بنانے کا مقصد فوت نہ ہونے پائے اور نہ ہی اس کے ذریعہ کسی کا استحصال کرنے کی کسی کیلئے بھی کوئی گنجائش باقی رہ جائے ۔ یہ وقت کی اہم ضرور ت ہے ۔