کسی بھی ملک میں میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ عوام کی نمائندگی کی جاتی ہے ۔ حکومت اور عوام کے درمیان ایک برج کا کام کیا جاتا ہے ۔ حکومت کی پالیسیوں اوراقدامات میں جو خامیاں اور نقائص پائی جاتی ہیں ان کو دور کرنے کیلئے میڈیا اپنی آواز بلند کرتا ہے ۔ عوامی احساسات اور توقعات کی عکاسی کرتے ہوئے حکومتوں کو ان سے باخبر بھی کرتا ہے ۔ میڈیا کے ذریعہ ہی حکومت کی ناکامیوں کو بھی اجاگر کیا جاتا ہے ۔ میڈیا کے ذریعہ حکومت کو اس کے وعدے یاد دلائے جاتے ہیں۔ اس کے کارنامے بھی اگر کچھ ہوں تو ان کی بھی تشہیر کی جاتی ہے ۔ عوام کو بھی ان کی اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جاتا ہے ۔ ان میں جذبہ حب الوطنی کو فروغ دیا جاتا ہے ۔ اسی لئے میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے ۔ تاہم حالیہ کچھ عرصہ میں دیکھا گیا ہے کہ میڈیا نے اپنے فرائض کو بالائے طاق رکھ دیا ہے بلکہ انہیں یکسر فراموش کردیا گیا ہے ۔ میڈیا اب مذہبی منافرت پھیلانے میں ایک دوسرے پر بازی لیجانے کیلئے کوشاں ہے ۔ایک چینل پر کسی مسئلہ کو مذہبی تعصب کی نظر سے پیش کیا جاتا ہے تو دوسرا چینل بھی اس سے سبقت لیجانے کی کوشش میں کوئی اور مسئلہ ڈھونڈ لاتا ہے ۔ ہر مسئلہ کو ہندو ۔ مسلم رنگ دیتے ہوئے سماج میں نفرگوں کو ہوا دی جا رہی ہے ۔ اہم طبقات کے مابین دوریاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ ایک دوسرے کے تعلق سے انہیں متنفر کیا جا رہا ہے ۔ ایسی کوششوں پر میڈیا کو عدالتوں کی پھٹکار کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے اس کے باوجود بھی میڈیا نے اپنے طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں لائی ہے اور پھنی روش کو برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ جو مسائل عوام کو درپیش ہیں اور جنہیں حکومت کے ایوانوں تک پیش کرنا میڈیا کی ذمہ داری ہے انہیں نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ اگر کوئی مسئلہ پیش بھی کیا جاتاہے تو اس ڈھنگ سے کیا جاتا ہے کہ اصل مسئلہ کہیں پس منظر میں چلاجاتا ہے اور پھر ٹی وی چینلوں پر بیٹھنے والے ہندو ۔ مسلم کے راگ الاپنے لگ جاتے ہیں۔ یہ میڈیا کی ایسی روش کی جس کو ترک کیا جانا بہت ضروری ہو گیا ہے ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں میڈیا کے سامنے صرف ٹی آر پی کی اہمیت رہ گئی ہے ۔ سماجی مسائل کی اور سماجی استحکام کی ان کے پاس کوئی قدر نہیں ہے ۔ وہ محض اپنے ٹی آر پی اور اس کی بنیاد پر اشتہارات اور مالیہ کمانے کی چکر میں بنیادی مسائل سے اور اپنے فرائض سے تغافل برت رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک قتل کا واقعہ پیش آیا ۔ اس میں ایک جنونی عاشق نے اپنی ہی گرل فرینڈ کا بہیمانہ طور پر قتل کردیا ۔ اس کی نعش کے ٹکڑے کرتے ہوئے اسے فریج میں رکھا ۔ دھیرے دھیرے ان اعضاء کو پھینکتا گیا ۔ یہ انتہائی سنسنی خیز اور رونگٹے کھڑے کردینے والا واقعہ ہے ۔ ایسے درندوں کی کوئی وکالت نہیں کی جاسکتی ۔ ایسا کرنے والوں کا کوئی مذہب بھی نہیں ہوتا ۔ تاہم چونکہ اس ملزم کا نام مسلمان نام سے ملتا جلتا تھا ایسے میں میڈیا کو ایسا لگا کہ انہیں چند دن کا چارہ مل گیا ہے ۔ وہ اسی مسئلہ پر مباحث کرنے بیٹھ گئے ۔ ملزم کے نام کو اور متوفی کو نام کو ضرورت سے زیادہ اچھالا گیا ۔ اس کے ذریعہ بھی ایک الگ ہی تاثر دینے کی کوشش کی گئی ۔ اس طرح کی کوششوں کا مقصد بھی مسلمانوں کو بدنام اور رسواء کرنا ہی تھا ۔ جس ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے اس کے تعلق سے کہا گیا ہے کہ وہ پارسی ہے ۔ تاہم میڈیا نے اسے کچھ اور سمجھ کر اس کی منفی تشہیر شروع کردی ۔ اصل سوال یہ نہیں ہے کہ ملزم کا مذہب کیا ہے ۔ اس معاملے میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملزم نے کتنی انسانیت سوز اور دل دہلادینے والی حرکت کی ہے ۔ اس جرم کی سنگینی سے سماج کو باخبر کرنے اور شعور بیدار کرنے کی ضرورت تھی ۔
ہمارے سماج میں اس طرح کے بہیمانہ واقعات کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے ۔ کسی بھی گوشے سے اس طرح کی غیرانسانی حرکت کا کوئی جواز بھی نہیں دیا جاسکتا ۔ ایسے میں اگر میڈیا اس کو منفی سوچ کے ساتھ ضرورت سے زیادہ تشہیر فراہم کرتا ہے تو اس سے خود میڈیا کی بیمار ذہنیت کی عکاسی ہوتی ہے ۔ ایسا کرتے ہوئے میڈیا سماج کی کوئی خدمت نہیں کر رہا ہے بلکہ سماج کی بدخدمتی کی جا رہی ہے ۔ سماج میں نفرتوں اور دوریوں کو فروغ دیا جا رہا ہے جبکہ ایسا کرنا میڈیا کا کام نہیں ہے ۔ میڈیا اپنی ذمہ داریوں کے مغائر کام کر رہا ہے ۔ صرف سیاسی سرپرستی حاصل کرنے یا پھر ٹی آر پی کی چکر میں ایسا کرنے سے میڈیا کو گریز کرنا چاہئے ۔ جو عوام ہیں اور انہیں جو مسائل ہیں انہیں پیش کرتے ہوئے اقتدار کے ایوانوں تک ان کی آواز پہونچانی چاہئے کیونکہ یہی میڈیا کی ذمہ داری بنتی ہے ۔
روزگار کی فراہمی اور حکومت
ملک میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ درج کیا جا رہا ہے ۔ بیروزگاری کئی برسوں میں سب سے زیادہ شرح تک پہونچ گئی ہے ۔ نوجوانوں کی اکثریت روزگار کی متلاشی ہے ۔ تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ دونوںہی طرح کے نوجوان روزگار کی وجہ سے پریشان ہیں۔ سرکاری اداروں میں تقررات عملا بند ہوگئے ہیں۔ خانگی اداروں میں بھی تقررات عمل میں لانے کی بجائے نوکریوں اور ملازمتوں میں تخفیف کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ فیس بک ‘ ٹوئیٹر اور امیزان جیسے عالمی ادارے بھی ملازمین کی تعداد میں کٹوتی کا سلسلہ شروع کرچکے ہیں۔ اس کے اثرات اندرون ملک کے اداروں اور کمپنیوں پر بھی مرتب ہونے لازمی ہیں۔ ہندوستانی صنعتی شعبہ میں پہلے ہی سے ملازمتوں کی تخفیف کا سلسلہ چل پڑا تھا ۔ نئی بھرتیاں اور تقررات کا سلسلہ رک سا گیا ہے ۔ حکومت کا جہاں تک سوال ہے تو وہ اس معاملے میں بالکل ہی بے پرواہ نظر آتی ہے ۔ صرف انتخابات کو پیش نظر رکھتے ہوئے چند بھرتیوں کا اعلان کیا جاتا ہے ۔ اس عمل کو بھی پورا کرنے میں بہت زیادہ وقت لگادیا جاتا ہے اور ایک طرح سے نوجوانوں کو دھوکہ دیا جا رہا ہے ۔ حکومت کو اس مسئلہ پر سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔