لاکھ ظلم و ناانصافی پھر بھی مسلمان زندہ ہیں !

   

پروفیسر اپوروآنند
ہمارے ملک بھارت میں صدیوں سے عید و تہوار مل جل کر اور بڑے جوش و خروش سے منائے جاتے ہیں اور تمام مذاہب کے ماننے واے عید و تہوار کی خوشیوں میں شامل ہو کر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں ایک دوسرے سے بغلگیر ہوتے ہیں ۔ آپس میں مٹھائیوں ، مختلف پکوانوں اور تحفے و تحائف کا تبادلہ بھی عمل میں آتا ہے ۔ خاص طور پر ہندو اور مسلمان بڑے خندہ پیشانی کے ساتھ تہواروں اور عیدوں میں شرکت کیا کرتے تاہم پچھلے ایک دہے سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ یہ خوشی کے مواقع فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے کا ذریعہ بن گئے ہیں اور یہ سب کچھ یوں ہی نہیں کیا جارہا ہے بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش اور ناپاک عزائم و مقاصد کی تکمیل کیلئے کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں رمضان کی عید جسے عیدالفطر بھی کہتے ہیں منائی گئی عید کے موقع پر غیر مسلم اپنے مسلم دوستوں کو مبارک باد دے رہے تھے اور یہ فطری امر بھی تھا کیونکہ مختلف مذاہب کے لوگوں کا ایک دوسرے کی خوشیوں میں شامل ہونا بھارتی تہذیب ہے لیکن اس تہذیب اور کلچر کے دشمن بھی پیدا ہوگئے ہیں لوگ عید کی خوشیاں منارہے تھے اور اس دوران راقم کو کسی دوست نے ایک ویڈیو بھیجا اور بتایا کہ سوشیل میڈیا پر یہ ویڈیو بہت وائرل ہورہا ہے اس ویڈیو میں کوئی قابل اعتراض بات تو نہیں تھی لیکن ایک باعث تشویش واقعہ کے بارے میں تھا وہ دراصل ملک کے مشہور و معروف گلوکار شان کا تھا جس میں وہ اپنے چاہنے والوں سے مخاطب تھے ان کے چہرہ پر جہاں پریشانی کے تاثرات واضح تھے وہیں وہ بار بار مسکرا بھی رہے تھے لہجہ بہت نرم تھا ۔ بات دراصل یہ تھی کہ عید کے موقع پر شان نے اپنے سر پر ٹوپی پہننے دعا مانگتے ہوئے اپنی ایک تصویر سوشیل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے اپنے دوستوں اور مسلم برادران وطن کو عید کی پرخلوص مبارکباد پیش کی تھی جس پر فرقہ وارانہ ماحول سے متاثر کچھ ہندوؤں نے انہیں بہت بُرا بھلا کہا اور مسلمانوں کو عید کی مبارکباد دینے کیلئے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔ شان نے پہلے پہل اسے بالکل نظرانداز کردیا اور پھر دیکھا کہ ان پر اس پوسٹ کیلئے تنقید کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے تب کہیں جاکر انہوں نے ان لوگوں کو یہ بتانے کا فیصلہ کیا کہ بھارت ایک ہمہ تہذیبی ہمہ مذہبی سیکولر و جمہوری ملک ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے مل جل کر رہتے ہیں ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں ۔
انہوں نے بہت ہی خوبصورت انداز اور لب و لہجہ میں اپنے پر تنقید کرنے والوں کو بتایا کہ آخر کیوں ہمیں دوسرے مذاہب اور ان کے ماننے والے برادران وطن کا احترام کرنا چاہئے ۔ ان سے لگاؤ کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ شان نے سارے ویڈیو میں کسی پر برہمی ظاہر نہیں کی تلخ کلامی سے گریز کیا ۔ چہرہ پر مسکراہٹ سجاکر پروقار لہجے میں بتایا کہ وہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ہم آہنگی دوستی محبت و مروت کو اچھا سمجھتے ہیں اس لئے وہ خود کو باہمی احترام کی اس راہ پر گامزن رکھیں گے خود کو نہیں بدلیں گے ۔ شان کے وائرل ویڈیو کی راقم نے بڑی دلچسپی سے سماعت کی اور ہندوؤں سے متعلق فکر مند ہوگیا صرف بھارت ہی نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم ہوچکے ہندوؤں کے بارے میں بھی فکر کرنے لگا اور سوچنے لگا کہ ہمارے عظیم ملک میں آخر یہ سب کچھ کیا ہورہے ہمیں عوام کو عید و تہوار کی ایک دوسرے کو مبارکباد دینے سے بھی روکا جارہا ہے ۔ آپ سب جانتے ہیں کہ ملک میں فرقہ پرستی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے جس کے تناظر میں بھارتی مسلمانوں سے متعلق سب کچھ لکھا گیا یعنی ان پر کئے گئے تشدد ، ان کے انفرادی اور اجتماعی طورپر کئے گئے قتل کے واقعات ، مسلمانوں کے مکانات دکانات کی تباہی اور ہر روز ان کی جانے والی تذلیل سے متعلق بہت کچھ تحریر کیا گیا ۔ یہاں تک کہ ریاست اور سوسائٹی کی جانب سے ان کے ساتھ کئے جانے والے نار و اسلوک اور ناانصافیوں کو بھی ان تحریروں میں اُجاگر کیا گیا جن میں یہ بھی بتایا گیا کہ بھارتی مسلمان ذہنی دباؤ کا شکار ہوگیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمان یہ ناانصافی اور ظلم و جبر قتل و غارت گری اور تذلیل سب برداشت کررہے ہیں اور زندہ ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہیکہ ریاست ( حکومتوں ) کی تمام تر طاقت کے باوجود بلقیس بانو انصاف کیلئے اب بھی لڑرہی ہے اور ان کی زبان میں شائستگی ہے ، وہ بے چارگی بے بسی مجبوری اور کمزوری کی علامت نہیں بنی ہے ۔ مسلمانوں کے زندہ رہنے کی ثال خالد سیفی بھی ہیں جو تین برس جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد صرف چھ گھنٹوں کیلئے گھر آتے ہیں ان کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری ہوتی ہے اور وہ بڑی بہادری کا ثبوت پیش کرتے ہوئے ان 6گھنٹوں میں اپنی ماں کی حتی المقدور خدمت کرتا ہے ان کے ناخن کاٹتا ہے انہیں اپنے ہاتھ سے سوئیاں بناکر کھلاتا ہے ۔ اس ملک میں مسلمانوں کے زندہ رہنے کی بہترین مثال ذکیہ جعفری ہیں جو سپریم کورٹ کی ناانصافی کے باوجود انصاف کیلئے لڑائی پر ڈٹی ہوئی ہیں انہیں امید ہیکہ اس لڑائی میں ایک دن ایسا آئے گا جب ان کی جیت ہوگی ۔