لاک ڈاؤن میں توسیع کے اثرات

   

سب کو معلوم ہے باہر کی ہوا قاتل ہے
یونہی قاتل سے اُلجھنے کی ضرورت کیا ہے
لاک ڈاؤن میں توسیع کے اثرات
کورونا وائرس پر قابو پانے کے لئے عوام میں سماجی دوری کو یقینی بنانے مرکزی حکومت نے ریاستی حکومتوں کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے 21 دن لاک ڈاؤن کیا تھا اب دو ہفتے گذرچکے ہیں اور لاک ڈاؤن کا آخری ہفتہ چل رہا ہے ۔ 14 اپریل کے بعد بھی لاک ڈاؤن میں توسیع دینے پر غور کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے اس میں توسیع دیدی تو پھر ملک بھر میں کئی مسائل پیدا ہوں گے یا توسیع نہیں دی گئی تو کورونا وائرس کے پھیلنے کا خطرہ ہوگا ۔ حکومت اس وقت نازک دوراہے پر کھڑی ہے ۔ ریاستی حکومتوں نے جیسے مہاراشٹرا ، یوپی ، تلنگانہ اور کرناٹک نے اشارہ دیا ہے کہ کورونا وائرس پر قابو پانے کے لئے لاک ڈاؤن میں توسیع کی ضرورت ہوگی ۔ مرکز اس بارے میں غور کرتے ہوئے مرحلہ وار لاک ڈاؤن کی برخواستگی کا قدم اُٹھاسکتا ہے ۔ جن علاقوں میں وائرس کے اثرات کم ہیں وہاں بتدریج لاک ڈاؤن میں نرمی لائی جائے گی ۔ ہندوستان کو 3 زمروں میں تقسیم کیا جائے گا جن علاقوں میں کورونا وائرس کے اثرات زیادہ ہیں وہاں لاک ڈاؤن میں توسیع دی جائے گی اور جہاں کم کیس پائے گئے ہیں وہاں لاک ڈاؤن کو مرحلہ وار طریقہ سے ہٹادیا جائے گا اور جہاں کوئی کیس نہیں ہے وہاں مکمل لاک ڈاؤن ہٹالیا جائے گا ۔ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت اس طریقے سے لاک ڈاؤن کو ختم کرے گی تو اس کے بعد جو کیفیت پیدا ہوگی اور جہاں کوئی کیس نہیں ہے وہاں نئے کیس پیدا ہوجائیں تو پھر سے لاک ڈاؤن کا اعلان افراتفری مچاسکتا ہے ۔ ملک میں لاک ڈاؤن کے 15 دن ہوئے ہیں اس دوران کورونا وائرس کے 4500 کیس اور 130 سے زیادہ اموات ہوئی ہیں اور 325 سے زیادہ مریض صحتیاب بھی ہوئے ہیں ۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کورنا وائرس ہندوستانی عوام پر زیادہ اثر انداز نہیں ہورہا ہے ، ہندوستانیوں کے اندر قوت مدافعت کے سامنے کورونا وائرس کا اثر زائل ہورہا ہے تو یہ ایک اچھی بات ہے اب حکومت اور طبی شعبہ کے ذمہ داروں کو یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جائے اور متاثرین کی بہترین دیکھ بھال طبی نگہداشت کی جائے ۔ اگر کوئی مریض صحتیاب ہوکر دواخانہ سے ڈسچارج ہوتا ہے تو ایسے مریضوں پر کڑی نظر رکھکر اُنھیں اُن کے گھروں میں مزید کچھ دنوں کیلئے کورنٹائن رکھنے کی ترغیب دی جاسکتی ہے ۔ تاکہ ان کے جسم اور صحت پر کورونا وائرس کا دوبارہ حملہ نہ ہوسکے ۔ ہندوستانیوں بلکہ ساری دنیا کے عوام کیلئے یہ ایک خوفناک بحران ہے اس پر قابو پانے کے طریقوں پر عجلت میں فیصلے نہیں ہونے چاہئے جس طرح حکومت نے 22 مارچ کے بعد عجلت میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا اور سارا ملک بحران کی زد میں آگیا جب کہ لاکھوں مزدور اچانک بیروزگار اور بے سہارا ہوگئے ، سڑکوں پر نکل پڑے ۔ کورونا وائرس نے لاکھوں افراد کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے تو اس وائرس کی وجہ سے لاکھوں غریب بھی پریشان ہیں ۔ اس وائرس اور لاک ڈاؤن کے بعد دنیا واضح طورپر دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ پہلی دنیا پریشان و دکھی ہے جبکہ دوسری دنیا مطمئن اور خوش ہے ۔ اس پہلی دنیا میں وہ تمام غریب متوسط طبقہ کے افراد ہیں جو روزانہ اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ دکھ کے ساتھ گذار رہے ہیں ۔ دوسری دنیا کا وہ طبقہ جو متمول ہے صاحب اختیار واقتدار ہے اسے کورونا وائرس یا لاک ڈاؤن سے کوئی فرق نہیں پرتا ہے وہ خوش و مطمئن ہے ۔ یہ لوگ موت کے خوف سے باہر جھانک تک نہیں رہے ہیں جبکہ لاک ڈاؤن میں کچھ جراتمند اور حوصلہ مندوں کی خدمات کا جذبہ رکھنے والے بھی ہیں جو لوگ مطمئن اور خوش ہیں کیونکہ اللہ نے انھیں لوگوں کی خدمت کا موقع فراہم کیا ہے ۔ یہ لوگوں کے لئے راشن فراہم کررہے ہیں اور گھر گھر پہونچارہے ہیں لیکن آخر یہ لوگ بھی کب تک مدد کرسکیں گے ۔ یہ بحران خوفناک حد تک بڑھ جائے تو کیا ہوگا ؟ حکومت اور بڑے صنعتی ادارے تو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں صرف رات 8 بجے ٹی وی پر آکر اعلان کرنے اور عوام کو تالی تھالی یا دیپ جلانے کے مشغولوں میں اُلجھائے رکھنے سے اصل بحران تو کم نہیں ہوگا ۔ بحران کوکم یا ختم کرنے کے لئے مالیاتی اقدامات اور راحت پیاکیجس کی ضرورت ہوتی ہے لہذا لاک ڈاؤن کی توسیع سے قبل مرکز اور ریاستی حکومتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ راحت پیاکیجس کے اقدامات کریں ورنہ اس طرح زبانی بھروسے اور کورونا وائرس کا خوف غریب عوام کو بے موت مار دے گا ۔