لاک ڈاؤن میں نئی نسل بھٹک گئی

   

اسمارٹ فون کا بیجا استعمال، والدین بچوں پر نظر رکھیں
مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا جائے

محمد نعیم وجاہت
معاشرتی اصلاحات ہر دور میں ہوئی ہے اور مستقبل میں بھی ہوتے رہے گی۔ اچھی چیزوں کو اپنانے اور خراب چیزوں کو ٹھکرانے والے ہی چیلنجس کا سامنا کر پاتیہیں۔ عالمی وباء کورونا وائرس کی وجہ سے نافذ کیا گیا لاک ڈاون سے بھی ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہے۔ مگر ہر دور کی طرح اسی دور میں بھی چند چیزیں معاشرے پر غائب ہونے لگتی ہیں۔ انسان ڈسپلن میں رہ کر ان برائیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ حکومت نے صرف آمدنی کی خاطر شراب کی دوکانات کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شراب جرائم کی ماں ہے۔ دوسری طرف تعلیمی سرگرمیاں مفلوج ہونے کے باعث آن لائن تعلیم کی اہمیت بھ گئی ہے۔ اس نظام سے جہاں آچھائیاں وہی برائیاں بھی ہیں ماں باپ اور خاندان کے دوسرے ارکان کو طلبہ پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ فحش مواد کے علاوہ طلبہ پب جی اور دوسرے گیمس کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں معاشرتی بگاڑ میں انتہائی اہم رول ادا کررہے ہیں۔ ٹی آر ایس نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ آہستہ آہستہ شراب پر امتناع عائد کیا جائے گا۔ مگر اس جانب حکومت نے کم ہی توجہ دی ہے۔ ہمیشہ شراب سے ہونے والی آمدنی پر زیادہ توجہ دی ہے۔ حکومت کو سالانہ شراب سے 17 ہزار کروڑ روپے کی آمدنی ہو رہی ہے۔لاک ڈاون کے دوران عوام نے اپنے آپ کو شراب پینے سے روک لیا ہے۔مگر حکومت شراب فروخت کرنے سے اپنےآپ کو روک نہیں پائی۔ لیکر مافیا۔ شراب سنڈیکیٹ کے سیاست میں قدم رکھنے کے بعد شراب کی فروختگی حکومت کی اولین ترجیح بن گئی ہے۔

مرکزی حکومت نے تیسری مرتبہ لاک ڈاون میں توسیع دیتے ہوئے چند رعایتیں بھی دی ہیں جس میں شراب کی فروختگی بھی شامل ہیں۔ مالی بحران کو کم کرنے کے لئے ملک کی تمام ریاستوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے اور اپنے خالی خزانوں کو بھرنے کے لئے ریڈ۔ آرینج اور گرین تمام زونس میں شراب کی دوکانات کھول دی۔ شرابی بھوکے شیر کی شراب کے دوکانات کھلنے کا انتظار کررہے تھے اور شراب کی دوکانات کھلتے ہی سب امنڈ پڑے، تعجب کی بات یہ رہی ہے کہ ان لمبی لمبی قطاروں میں خواتین کو بھی دیکھا گیا ہے۔ تلنگانہ میں 2200 شراب کی دوکانات ہیں ان میں صرف 14 دوکانیں اسی لئے نہیں کھلی کیونکہ وہ کنٹیمنٹ زونس میں تھی۔ ماباقی دوکانات میں 16 فیصد زیادہ قیمتوں پر شراب پر فروخت کی گئی صرف ایک ہی دن میں ساری ریاست میں 90 کروڑ روپے کی شراب فروخت ہوئی جس میں شہر حیدرآباد میں 50 کروڑ روپے کی فروخت ہوئی ہے۔ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ شراب کی فروختگی سے حکومت کو ماہانہ 350 کروڑ تا 400 کروڑ کی آمدنی ہوئی۔ لاک ڈاون کے دوران سبھی سرکاری خانگی دفاتر بند ہیں۔ تعلیمی تجارتی سرگرمیاں، تھیٹرس، مالس وغیرہ بند ہیں۔ یہاں تک مذہبی عبادتوں، شادیوں اور دیگر تقاریب پر پابندیاں ہیں مگر زندگی کے لئے مضر ثابت ہونے والی اور جرائم کی جڑ ثابت ہونے والی شراب کو فروخت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ شراب کے دوکانات کے سامنے لمبی لمبی قطاروں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کورونا سے ریاست میں اُتنی اموات نہیں ہوں گی جتنی شراب پینے سے ہوں گی۔ کل تک کورونا کو کنٹرول کرنے میں اہم رول ادا کرنے والے پولیس ملازمین کو اب شراب کی دوکانات کے پاس ڈیوٹی پر تعین کیا گیا۔ کئی چیک پوسٹس خالی ہوگئے ہیں۔
حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ لاک ڈاون میں روزگار سے محروم ہونے والے عوام کی بھوک پیاس کو مٹانے ان کے لئے کوئی معاشی پیاکیج کا انتظام کریں۔ ان سب کو چھوڑ کر پہلے سے قرضوں میں مبتلا عوام پر مالی بوجھ عائد کرنے اور سرکاری خزانے بھرنے کے لئے شراب کی دوکانات کھول دی گئیں۔ عالمی اداروں نے انکشاف کیا ہے کہ ساری دنیا میں لاک ڈاون سے گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسی صورت میں شراب کی دوکنات کھولنے سے خواتین پر مظالم میں مزید اضافہ ہوگا اور ایسے کئی واقعات بھی پیش آئیں گے۔ خواتین پر حملوں کے ساتھ نشہ میں گاڑی چلانے سے حادثات بھی پیش آسکتے ہیں۔ خواتین پر تشدد۔ عصمت ریزی کے واقعات اور دوسرے جرائم میں شراب کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ دہلی کا نربھئے ہو یا حیدرآباد کا دشا عصمت ریزی واقعہ کے علاوہ دوسرے عصمت ریزی کے واقعات میں ملوث ہونے والوں نے شراب نوشی کی ہے۔ پولیس تحقیقات میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے۔ جرائم کے تمام اعداد و شمار سامنے رکھتے ہوئے حکومت صرف آمدنی کے لئے انسانی زندگیوں سے کھلواڑ کررہی ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر نے کورونا سے نمٹنے کے لئے لاک ڈاون میں توسیع کے دوران کہا تھا۔ معیشت پر دوبارہ نظرثانی کی جاسکتی ہے مگر انسانی زندگیوں سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ پھر انہوں نے شراب کی دوکانات کو کھولتے ہوئے انسانی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور جرائم کے دروازے کھول دیئے ہیں امکانی حادثات کو دعوت دے رہے ہیں۔

لاک ڈاون کی وجہ سے سرگرمیاں ٹھپ ہو جانے کے باعث آن لائن سرگرمیوں میں ساری دنیا میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے۔ آئی ٹی سیکٹر میں ورک فرم ہوم چل رہا ہے۔ وزیر اعظم سے کلکٹر تک سب ویڈیو کانفرنس سے بات چیت کررہے ہیں۔ موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کی حکمت عملی تیار کررہے ہیں۔ تعلیمی سرگرمیاں ٹھپ ہونے اور کلاس روم بند ہونے کی وجہ سے آن لائن تعلیم بھی عام ہوگئی ہے۔ یہ اچھی بات ہے۔ مگر ہر قدم پر دو پہلو ہوتے ہیں مثبت اور منفی ان میں مثبت پہلو کا انتخاب کرنے والے ہر میدان میں کامیاب ہوتے ہیں مگر نئی نسل کی سوچ فکر اور ان کی ترجیحات بالکل الگ ہیں۔ آن لائن سرگرمیاں ایسی چیزیں ہیں ناچاہتے ہوئے بھی نوجوان نسل دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔ والدین اور سرپرستوں کی ذمہ داری ہیکہ وہ بچوں کی ان لائن سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔ ایک سروے میں انکشاف ہوا ہیکہ طلبہ زیادہ تر اسمارٹ فون استعمال کرنے کے دوران اس کا بیجا استعمال بھی کررہے ہیں۔ عام شکایت یہ ہے کہ فحش سائیٹس کو ناچاہتے ہوئے بھی کھول رہے ہیں اور پب جی گیم میں اپنا سارا وقت برباد کررہے ہیں۔ شہر حیدرآباد کی ایک مشہور سائیکالوجسٹ ڈاکٹر گیتا چلا نے بتایا کہ لاک ڈاون کے دوران انہیں کئی والدین کے فون وصول ہو رہے ہیں جس میں طلبہ کی جانب سے فحش شارٹ فلمیں دیکھنے اور پب جی گیم کھیلنے سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے راستے طلب کی جارہی ہیں۔ وہ خود کئی طلبہ اور ان کے والدین کی کونسلنگ کرچکی ہی۔ ڈاٹر گیتا نے کہا کہ یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے جہاں نوجوان نسل بھٹک جاتی ہے اور اپنا مستقبل برباد کرلیتی ہے۔ ایسی صورت میں ڈرانے دھمکانے کے بجائے پیار و محبت اور مختلف حوالوں سے ہمدردانہ طور پر سمجھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بصورت دیگر بچے ضدی اور نڈر ہو جاتے ہیں اور وہ کسی بھی حد تک جانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ طلبہ کی ذہنی حالت کو دیکھتے ہوئے فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے والدین کو ہر چیز میں منفی پہلو کو دیکھنے کے انداز کو ترک کرنا چاہئے۔ بچوں میں مثبت پہلووں کو اُجاگر کرتے ہوئے ہمیشہ ان کی حوصلہ افزائی کو ترجیح دینا چاہئے تبھی جاکر سدھار آسکتا ہے۔