کتنے بھاری تھے شب و روز جنوں سے پہلے
وقت کو مائل پرواز کیا ہے ہم نے
تلنگانہ ملک کی وہ پہلی ریاست بن گئی ہے جس نے کورونا وائرس کی دوسری لہر سے نمٹنے کے بعد لاک ڈاون کو مکمل طور پر برخواست کردیا ہے ۔ تلنگانہ کابینہ کا ایک اجلاس آج ہفتے کو چیف منسٹر کے سی آر کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں مختلف امور اور پہلووں کا جائزہ لینے کے بعد ریاست سے لاک ڈاون کو مکمل برخواست کردینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ حکومت نے لاک ڈاون کے تحت عائد کردہ تمام تحدیدات کو بھی ختم کردیا ہے اور محکمہ تعلیم کو یکم جولائی سے تعلیمی اداروں کو کھولنے کی اجازت بھی دیدی ہے ۔ اس طرح تلنگانہ ملک کی وہ پہلی ریاست بن گئی ہے جس نے تحدیدات کو مکمل برخواست کرتے ہوئے عام زندگی کو پوری طرح سے بحال کرنے کی سمت پیشرفت کی ہے ۔ حالانکہ حکومت نے تمام پہلووں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے ۔ کورونا کے کیسوں میں ہونے والی بتدریج کمی ‘ انفیکشن کی شرح ‘ اموات کی شرح اور صحتیابی کی شرح کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے جس سے نہ صرف حکومت کی معاشی حالت کو سدھارنے میں مدد ملے گی بلکہ عوام کو بھی مکمل راحت ملے گی ۔ کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں کی بحالی عمل میں آئے گی اور معیشت کا احیاء ہوسکتا ہے ۔ جہاں تک تعلیمی اداروں کی کشادگی کا مسئلہ ہے اس پر کچھ احتیاط کی جاسکتی تھی ۔ چونکہ ملک میں کورونا کی تیسری لہر کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ کم عمر بچے اس سے متاثر ہوسکتے ہیں ایسے میں اسکولس وغیرہ کی کشادگی کے تعلق سے محتاط رویہ اختیار کیا جاسکتا ہے ۔ پوسٹ گریجویشن ‘ گریجویشن ‘ انٹرمیڈیٹ تعلیمی اداروں کی بحالی سے تعلیمی سرگرمیوں کا احیاء بھی ہوسکتا ہے ۔ اس ساری صورتحال میں تاہم عوام کو حد درجہ احتیاط کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔ معمولات زندگی کو اختیار کرتے ہوئے احتیاط کے تقاضوں کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے ۔ یہ بات ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے کہ کورونا جیسا مہلک وائرس ابھی کمزور ہوا ہے اور پوری طرح سے اس کا خاتمہ نہیں ہو پایا ہے ۔ حکومت نے بھی اپنے احکام میں واضح کیا ہے کہ تمام پہلووں کو ذہن نشین رکھتے ہوئے لاک ڈاون ختم کیا گیا ہے لیکن احتیاط برقرار رکھی جانی چاہئے ۔
لاک ڈاون یقینی طور پر ریاست کی معیشت اور عوام کیلئے انتہائی منفی اثرات والا رہا ہے ۔ لوگ بہت زیادہ مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ کورونا کی شدت کو کم کرنے کیلئے کیا گیا تھا تاہم اب جبکہ لاک ڈاون ختم ہو رہا ہے تو جس طرح لاک ڈاون کے دوران احتیاط اختیار کی گئی تھی اسی طرح اب بھی احتیاط کے تقاضوں کی تکمیل کی جانی چاہئے ۔ سماجی فاصلہ اور سینیٹائزر و ماسک کے استعمال سے لاپرواہی نہیں برتی جانی چاہئے ۔ انتہائی بھیڑ بھاڑ والے مقامات سے دوری اختیار کی جانی چاہئے بلکہ خود عوام کو اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ کسی مقام پر حد سے زیادہ بھیڑ بھاڑ جمع نہ ہونے پائے ۔ اب چونکہ کسی طرح کی پابندی یا تحدیدات نہیں ہیں ایسے میں کسی ایک مقام پر ہجوم یا بھیڑ اکٹھا کرنے کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہوگی ۔ بازاروں اور مارکٹوں میں پرسکون ماحول میںخریداری کی جاسکتی ہے ۔ کسی وقت کی کوئی قید نہیں ہے ایسے میںبھیڑ جمع ہونے سے ہی گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ جہاں تک ماسک کا استعمال ہے تو یہ ایک معمولی احتیاط ہے اور اس سے وائرس سے بچنے میں بہت زیادہ مدد ملتی ہے ۔ اس بات کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ ماسک سے نہ صرف کورونا وائرس سے بچا جاسکتا ہے بلکہ آج کے دور میں آلودگی اور دھول وغیرہ سے بھی بچنے میں مدد ملتی ہے اور اس کا استعمال عوام کیلئے فائدہ مند ہی ہوگا ۔ لاک ڈاون کی برخواستگی کے بعد فضائی آلودگی میںاضافہ ہوگا جس سے ماسک کا استعمال کرتے ہوئے بچا جاسکتا ہے ۔
لاک ڈاون کے دوران جس طرح شادی بیاہ اور دیگر تقاریب کا انتہائی سادگی سے اہتمام کیا گیا تھا ضرورت اس بات کی ہے کہ لاک ڈاون کے بعد بھی اسی سادگی کو برقرار رکھا جائے ۔ سینکڑوں ہزاروں افراد کو جمع کرتے ہوئے دعوتیں کرنے کی بجائے سادگی کے ساتھ تقاریب کا اہتمام سبھی کیلئے بہتر ہے ۔ اس سے پیسہ ضائع نہیں ہوگا اور ساتھ ہی کسی طرح کی وباء کا بھی کوئی خطرہ نہیں رہے گا ۔ اس کے ساتھ متوسط اور غریب طبقات کیلئے بھی بھرم رکھنے کا موقع فراہم ہوگا ۔ لاک ڈاون کے خاتمہ کے ساتھ ہی بد احتیاطی کا سلسلہ شروع کرنے سے حتی المقدور بچنے کی ضرورت ہے ۔ بچوں اور معمر افراد کیلئے بھی حد درجہ احتیاط کو ہی ملحوظ رکھا جانا چاہئے ۔ بچوں کو خاص طور پر تیسری لہر کے اندیشوں کے تحت محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے جو حد درجہ احتیاط کے ذریعہ ہی ممکن ہوسکتی ہے ۔
نئے ایرانی صدر ‘ چیلنجس درپیش
ایران میں 60 سالہ ابراہیم رئیسی ملک کے نئے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ ان کے انتخاب کا آج اعلان کیا گیا ۔ وہ ایک ایسے وقت میں ایران کے صدر منتخب ہوئے ہیں جو ایران کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل کہا جاسکتا ہے ۔ انہیں عالمی طاقتوں کے ساتھ نیوکلئیر مسئلہ پر مشاورت کو کامیاب انداز میں آگے بڑھانے اور سخت ترین امریکی تحدیدات کو برخواست کروانے کی سمت پیشرفت کرنے کا چیلنج درپیش ہے ۔ امریکی تحدیدات نے ایران کی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ ایرانی عوام کیلئے تحدیدات کا خاتمہ بہت ضروری ہے ۔ ابراہیم رئیسی ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای سے قربت رکھتے ہیں اور یہ بات ان کیلئے فیصلہ سازی میں معاون بھی ثابت ہوسکتی ہے ۔ ایران کو عالمی سطح پر جس طرح سے امریکہ ‘ اسرائیل اور ان کے حواریوں نے نشانہ بنایا ہے اس کے اثرات کو ختم کرنے کیلئے ابراہیم رئیسی کو ایک موثر حکمت عملی کے ساتھ کام کرنا ہوگا ۔ انہیں عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدہ کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی ہوگی کیونکہ تحدیدات کو ختم کرنے کیلئے یہی معاہدہ اہمیت کا حامل ہوگا ۔ اس کیلئے انہیں کامیاب سفارتکاری پر خاص توجہ کی ضرورت ہوگی ۔
