لوگوں کو معیشت کی نہیں سشانت اور ریا چکروبورتی کی فکر

   

راجدیپ سردیسائی

قومی ٹی وی چیانلس پر ملک کو درپیش لاکھ مسائل کے باوجود صرف ایک موضوع کو ہی پیش کیا جارہا ہے۔ ہر ٹی وی چیانل پر فلم اداکار سشانت سنگھ راجپوت کی المناک موت کے بارے میں تفصیل سے بتایا جارہا ہے جبکہ ہمارے ملک کو کئی ایک سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب سے کچھ ہفتوں کے لئے ذرائع ابلاغ کے مبصرین کی جانب سے ٹی وی نیوز یا ٹی وی خبروں کے گذر جانے کا پروانہ لکھ دیا گیا ہے۔ سنسنی خیز اور بالکل غلط خبریں نشر کی جارہی ہیں جہاں تک اداکار سشانت سنگھ راجپوت کی المناک موت کا سوال ہے اس موت کے بارے میں جو کوریج دیا جارہا ہے وہ پوری طرح احمقانہ ہے اور میڈیا کی اس روش کو اس کی آخری رسومات کی حیثیت سے دیکھا جارہا ہے۔ ویسے بھی ایسا لگتا ہے کہ ہمارا میڈیا اپنی تباہی کے آخری دہانے پر ہے۔

لیکن کیا 24/7 میڈیا احمقانہ بریکنگ نیوز ریٹنگ، ریونیو (آمدنی) حد سے زیادہ مسابقت اور قوائد کی ناکامی کے شیطانی چکرویو میں پھنس گیا ہے۔ فی الوقت بے شمار ادارے اور تنظیمیں ہیں جن پر ملک کے سنگین مسائل کو نظرانداز کرنے کا الزام ہے لیکن اس معاملہ میں میڈیا سب سے زیادہ بدنام ہوچکا ہے۔ ٹی وی چیانلس پر اہم مسائل کو نظرانداز کرکے سشانت سنگھ کی موت کو پیش کرنا اور بار بار اسی پر تبصرے کرنا عوام کی توجہ اہم مسائل سے ہٹانے کے مترادف ہے۔ ویسے بھی ملک میں ہر ایجنسی اور میڈیا سب کے سب محسوس ہوتا ہے کہ اپنا فرض بھول چکے ہیں اور اپنی ذمہ داریاں پس پشت ڈال چکے ہیں۔ مثال کے طور پر تحقیقاتی ایجنسیوں کے کردار پر غور کریں اور دیکھیں کہ کب ملک کی تین سرفہرست قومی ایجنسیاں سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن (CBI)، انفورسمینٹ ڈائرکٹوریٹ (ED) اور نارکوٹکس کنٹرول بیورو (NCB) نے کسی اداکار کی موت کی اس قدر تحقیقات کیں اور توانائی صرف کی ہو۔ جیسے ہی سشانت سنگھ راجپوت کی خودکشی کی خبر پھیلی اس کے اندرون چند یوم ہی انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ حرکت میں آگئی اور راجپوت کی گرل فرینڈ اداکارہ ریاچکرورتی اور اس کے خاندان کے خلاف بہار میں درج کروائی گئی ایف آئی آر کی بنیاد پر بڑی تیزی سے منی لانڈرنگ کا مقدمہ شروع کردیا۔ اگرچہ بہار میں جو ایف آئی آر درج کروائی گئی اور منی لانڈرنگ کے جو الزامات عائد کئے گئے وہ غلط ثابت ہوئے کیونکہ اس ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ سشانت سنگھ کے بینک اکاؤنٹ سے 15 کروڑ روپے سرقہ کرلئے گئے۔ یہ مقدمات خالصتاً واٹس ایپ پر بات چیت کی بنیاد پر شروع کئے گئے یا قائم کئے گئے اور واٹس ایپ بات چیت کو ایک تو سب سے پہلے انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ نے انکشاف کیا یا افشا کیا پھر نارکوٹکس کنٹرول بیورو (NCB) نے ریا، اس کے بھائی اور سشانت سنگھ راجپوت کے گھر میں کام کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک اداکار کے لئے صرف 59 گرام منشیات کی خریدی اس کا استعمال اور اس کے لئے مالیہ کی فراہمی این سی بی یا نارکوٹکس کنٹرول بیورو کے لئے گرفتاریوں کی وجہ بن گئی اور یہ وجوہات ریا چکربورتی اور اس کے بھائی اور دیگر کی گرفتاری کے لئے کافی رہی حالانکہ نارکوٹکس کنٹرول بیورو کا اصل کام بین ریاستی اور عالمی ڈرگ مافیاوں تک پہنچ کر انہیں گرفتار کرنا ہے۔ پتہ نہیں اس کیس میں نارکوٹکس کنٹرول بیورو کو کیا ہوگیا۔ اس کیس میں بظاہر خودکشی کے اس واقعہ کو اچانک خودکشی پر اکسانے کے کیس کا رنگ دے دیا گیا اور اس کی تحقیقات کی گئی اور پھر مشکوک انداز میں دعویٰ کیا گیا کہ یہ خودکشی نہیں بلکہ قتل ہے۔ اس کیس کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بالی ووڈ میں اقربا پروری سے لے کر مافیا تعلقات اور پھر معاشی جرائم سے لے کر اب منشیات میں سیاسی قائدین کا ملوث ہیں۔
اس تمام معاملہ میں جو چیز بہت پریشان کن ہے وہ مہذب سماج کا ردعمل ہے۔ آپ فلم انڈسٹری کو ہی دیکھ لیجئے جس سے راجپوت اور ریا چکرورتی کا تعلق ہے۔ چند ایک بے باک آوازوں کو چھوڑ کر بڑے فلمی ستاروں کی اکثریت نے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ انہیں اس بات کا خوف ہے کہ اگر وہ اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں تو سوشل میڈیا پر ان کے خلاف مہم چلائی جائے گی۔ اگر فلم انڈسٹری کے کرتا دھرتا ہی منہ کھولنے اور کچھ بولنے سے گھبراتے ہیں تو اس سے فلمی صنعت کی ہمت گرجائے گی اور ہر کوئی انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کو اپنا نشانہ بنائے گا خاص طور پر فلم انڈسٹری کے دولتمند اور طاقتور لوگ آپ کا پیچھا کریں گے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اہم شخصیتوں کی جانب سے آواز نہ اٹھائے جانے کے باعث اس خلاء کو پر کرنے کی تشہیر میں دلچسپی رکھنے والوں جیسے کنگنا رناوت پُر کررہی ہے یقینا جس کا اپنا سیاسی ایجنڈہ ہے۔ اب تو شیوسینا رناوت کو نشانہ بنا رہی ہے جس سے حالات کے عجیب و غریب ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے ٹی وی دیکھنے والے بھی صرف ذہنی تسکین حاصل کررہے ہیں وہ بھی کچھ بولنے سے قاصر ہیں۔ منشیات کا استعمال، ذہنی بیماری اور ذہنی تناؤ کے نتیجہ میں کہا جاتا ہے کہ سشانت سنگھ کی موت ہوئی اور اس بارے میں ان کا علاج کرنے والے ماہرین نفسیات نے بھی انکشاف کیا لیکن کوئی بھی اس پر توجہ نہیں دے رہا اور اس کیس کو سنسنی خیز بنایا جارہا ہے، جبکہ ہمیں جی ڈی پی کے گرنے، روزگار سے لوگوں کے محروم ہونے، کورونا سے متاثر ہونے جیسے کئی ایک مسائل کا سامنا ہے۔ حال ہی میں جب میں اپنے دوستوں کے ہمراہ چہل قدمی کررہا تھا تب میں نے کہا کہ جی ڈی پی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس قدر زیادہ گر گیا ہے۔ مجھے امید تھی کہ میرے تاجر دوست اس کے لئے معیشت کے ذمہ داروں کو ذمہ دار قرار دیں گے لیکن اس سوال پر میرے ایک دوست نے فوراً کہا معیشت کو بھول جائیے پہلے مجھے یہ بتائیے کہ ریا چکرورتی بے قصور ہے یا قصور وار۔ اس سے یقینا آپ کو حیرت ہورہی ہوگی کہ ہم ذہنی تسکین حاصل کرنے والوں کی ایک فرضی جمہوریہ بنتے جارہے ہیں۔