لکشادیپ میں بغاوت کا پہلا مقدمہ

   

کرونا جان
لکشادیپ، اس کے نئے اڈمنسٹریٹر پرفل کھوڑا پٹیل کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے لئے ہنوز خبروں میں چھایا ہوا ہے۔ نئے اڈمنسٹریٹر نے لکشادیپ میں بحیثیت اڈمنسٹریٹر قدم رکھتے ہی پنچایت انتخابات میں حصہ لینے کے خواہاں افراد کے لئے دو بچوں کی شرط عائد کردی، بیف (بڑے جانور کے گوشت پر پابندی) کا اعلان کیا۔ شراب پر عائد پابندی اٹھانے کی تجویز پیش کی۔ غنڈہ ایکٹ پر عمل آوری کے بارے میں بھی اعلان کیا۔ ترقیاتی پراجکٹ کے نام پر لکشادیپ میں اراضی کے استعمال اور ملکیت سے متعلق قانون میں ترمیم کے منصوبے بھی سامنے لائے۔ اس طرح پرفل کھوڑا پٹیل کے متنازعہ منصوبوں نے اس خوبصورت اور قدرتی حسن سے مالامال جزیرہ نما کو ایک بہت بڑے تنازعہ میں پھنسا دیا ہے۔
اب یہ تنازعہ اس قدر بڑھ گیا ہیکہ پولیس لکشادیپ نے اپنے آقاؤں کے اشاروں پر نئے اڈمنسٹریٹر کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کرنے کا آغاز کردیا ہے اور اس معاملہ میں سب سے پہلا نشانہ سماجی جہدکار اور فلمساز عائشہ سلطانہ بنی ہیں۔ پولیس نے ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا ہے۔ بی جے پی لکشادیپ یونٹ کے صدر عبدالقادر کی شکایت پر عائشہ سلطانہ کے خلاف اس مقدمہ کا اندراج عمل میں آیا ہے۔ نیوز رپورٹس کے مطابق عبدالقادر نے 9 جون کو کاوارائی کے لئے پولیس میں عائشہ سلطانہ کے خلاف شکایت درج کروائی جس میں انہوں نے الزام عائد کیا کہ عائشہ سلطانہ نے مرکزی حکومت پر لکشادیپ میں کووڈ پھیلانے کے لئے حیاتیاتی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ بتایا جاتا ہیکہ اس طرح کا مبینہ بیان خاتون فلمساز نے ایک ٹی وی چیانل کے مباحث کے دوران دیا۔ عبدالقادر کی شکایت پر کاواراتی کرتے ہوئے عائشہ سلطانہ کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعات 124A (بغاوت) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ سلطانہ جہاں ایک سماجی جہدکار اور فلمساز ہیں وہیں ایک اداکار اور ماڈل بھی ہیں۔ انہوں نے ٹی وی شو کے دوران بار بار یہ دریافت کیا کہ لکشادیپ جہاں کووڈ کا ایک بھی مریض نہیں تھا اب کیسے وہاں 100 سے زائد افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ لکشادیپ کے عوام پر آزمانے کے لئے وہاں حیاتیاتی ہتھیار متعین کیا گیا یا پھر استعمال کیا گیا لیکن اسے ایک عجیب و غریب سازشی نظریہ قرار دے کر مسترد کئے جانے کی بجائے سلطانہ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ عبدالقادر نے اپنی شکایت میں یہ الزام عائد کیا کہ سلطانہ کا بیان ایک طرح کی قوم دشمن کارروائی ہے جس سے مرکزی حکومت کی ’’حب الوطنی‘‘ کی جو شبیہہ ہے وہ مسخ ہوئی ہے۔ جہاں تک عائشہ سلطانہ کے خلاف بغاوت کے مقدمہ کا سوال ہے اس مرکز زیر انتظام علاقہ میں کسی کے خلاف درج کردہ بغاوت کا یہ پہلا مقدمہ ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لکشادیپ پولیس کس کے حکم پر کام کرتی ہے اور کس کو رپورٹ کرتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہیکہ لکشادیپ ایک مرکزی زیر انتظام علاقہ ہے اور یہاں کی پولیس اڈمنسٹریٹر کے توسط سے مرکزی وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نئے اڈمنسٹریٹر پرفل کھوڑا پٹیل نے ہی اس جزیرہ کی رہنے والی ایک فرد کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کو منظوری دی جس نے ایک ٹیلی ویژن مباحثہ کے دوران حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ حکومت کے خلاف تبصرہ کیا۔ مرکزی زیرانتظام علاقہ کی پولیس کے تنظیمی ڈھانچہ کی جو کارکردگی ہے وہ اس کے لئے راست مرکزی وزارت داخلہ کو جوابدہ ہوتی ہے اور اس کے لئے مقامی اڈمنسٹریٹر ایک ذریعہ ہے۔ ایسے میں مرکزی وزارت داخلہ عائشہ سلطانہ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کئے جانے سے بے خبر ہو ایسا ہو نہیں سکتا۔
دوسری جانب لکشادیپ میں نئے اڈمنسٹریٹر کے منصوبوں اور تجاویز کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ وہاں کے مکینوں نے پرفل کھوڑا پٹیل کی تجاویز اور منصوبوں کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔حال ہی میں وہاں عوام نے ایک تاریخی بھوک ہڑتال کا اہتمام کیا تاکہ نئے اڈمنسٹریٹر کے حالیہ فیصلوں کی متحدہ و مشترکہ طور پر مخالفت کی جاسکے۔لکشادیپ کے رکن پارلیمنٹ فیصل پدی پورہ نے سبز رنگ سے بات چیت میں انکشاف کیا کہ حکومت نے ایک حکمنامہ جاری کیا جس کے تحت یہ ضروری قرار دیا گیا ہیکہ ماہی گیری کے لئے استعمال ہونے والی ہر کشتی میں نگرانی کے لئے ایک سرکاری ملازم کو بھی لے جایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ یہ اشارہ دے دیا ہیکہ لکشادیپ میں کچھ ہونے والا ہے اور ان کی نگرانی کی جارہی ہے جبکہ حکومت بالخصوص نئے انتظامیہ کو یہ اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ بحریہ اور ساحلی گارڈس علاقہ میں بہتر طور پر کام کررہے ہیں۔ ایسے میں انہیں مزید نگرانی کی ضرورت نہیں ہے۔
تاہم 10جون کو میڈیا رپورٹس میں اس بات کی توثیق کی گئی کہ انتظامیہ نے کشتیوں کی نگرانی کا جو حکم دیا وہ واپس لے لیا گیا۔ دی ویب میں 28 مئی کو شائع ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ ایک ذمہ دار سرکاری ملازم کو ماہی گیری کے لئے استعمال ہونے والی مقام کشتیوں میں متعین کرنے کا فیصلہ خفیہ معلومات کے حصول کے لئے کیا ہے۔ اس کے علاوہ ماہی گیری کے لئے استعمال ہونے والی کشتیوں جزیرہ پر پہنچنے والے مسافرین اور بحری جہازوں کی نگرانی کا بھی فیصلہ کیا گیا اور اس کے لئے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے جائیں گے۔ بہرحال جزیرہ لکشادیپ اپنی ایک منفرد شناخت اور پہچان رکھتا ہے اور اس جزیرہ کی 99 فیصد آبادی مسلم ہے اور یہاں کے لوگوں کی اکثریت مچھلی اور دوسری سمندری غذائیں استعمال کرتی ہیں۔ یہاں پر لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بھی غیر معمولی بہتر ہے۔ جرائم کی شرح ناہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں بیف پر پابندی، شراب پر عائد پابندی اٹھانے غنڈہ ایکٹ نافذ کرنے جیسے اقدامات ناقابل فہم ہے۔ گجرات جیںی ریاست میں بھی شراب پر پابندی ہے تو پھر نئے اڈمنسٹریٹر کیوں اس جزیرہ میں شراب پر عائد پابندی کیوں ہٹانا چاہتے ہیں۔