مائیک پامپیو کا دورۂ ہند

   

امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پامپیو کا دورہ ہندوستان کو کافی اہمیت دی گئی لیکن نئے وزیر خارجہ ہند جئے شنکر کے لیے یہ ملاقات اور دورہ کڑی آزمائش کا مرحلہ ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت کی دوسری میعاد ابھی شروع ہوئی ہے لیکن اس حکومت کی خارجی پالیسیوں میں امریکہ کے ساتھ تعلقات اور تجارتی امور سے نمٹنے میں نئے وزیر خارجہ جئے شنکر کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں اس کا پہلا امتحان امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پامپیو سے ان کی بات چیت کے نتائج فوری طور پر ظاہر نہیں ہوں گے ۔ لیکن امریکہ اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے کی ہمیشہ کوشش کرتا رہا ہے ۔ روس کے ساتھ 5 بلین کے فضائی دفاعی میزائیل معاہدہ کے لیے کوشاں ہندوستان کو امریکی تحدیدات کے خطرات کا بھی سامنا ہے ۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ ہندوستان اس کے علاوہ کسی اور ملک سے دفاعی ہتھیار حاصل کرے ۔ یہ بات تو سب پر عیاں ہے کہ ہندوستان نے اپنے دفاعی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے روس کے ساتھ دیرینہ دفاعی تعلقات برقرار رکھے ہیں ۔ برسوں سے فوجی ساز و سامان خریدتے ہوئے ہندوستان نے روس کے ساتھ کئی معاہدے کئے ہیں ۔ اس کے تحت بڑے پیمانہ پر مینوفیکچرنگ کی جاتی ہے اور لائسنس کے تحت ہی اس نے S-400 طویل فاصلاتی میزائیل کے لیے 5 بلین ڈالر کے معاہدہ کئے ۔ اس معاہدہ کو امریکہ اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگا جس کے بعد ہی ہندوستان کو بھی معاشی تحدیدات کی دھمکی دی گئی ۔ روس سے خریدے جانے والے میزائیل S400 کی خوبی یہ ہے کہ وہ 400 کلومیٹر کے فاصلے پر اپنے اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں ۔ یہ دنیا کا سب سے مہلک ہتھیار ہے جو زمین سے فضا میں نشانہ لگاتا ہے ۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ہندوستان فوری طور پر روس کے ساتھ اس میزائیلس خریداری معاہدہ کو منسوخ کردے ۔ معاشی تحدیدات کا جو قانون امریکہ کے پاس ہے اس کا اطلاق ہندوستان پر کیا جاسکتا ہے کیوں کہ جو بھی ملک ایران ، شمالی کوریا یا روس سے دفاعی معاہدے کرتا ہے وہ امریکہ کی معاشی پابندیوں کے دائرہ میں آتا ہے ۔ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات بھی قدیم اور مضبوط رہے ہیں ۔ امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پامپیو کے اس دورہ سے ان قدیم تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے تو یہ ایک کامیاب دورہ کہلائے گا ۔ ہندوستان نے اس خطہ میں تصادم کو ٹالنے والی پالیسی کے بشمول دیگر امور پر امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ سے بات چیت کی ہے ۔

اصل مسئلہ کو ایران کے ساتھ امریکہ کی بڑھتی کشیدگی کو کم کرنا تھا مگر دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے اس پر زیادہ زور نہیں دیا ۔ اس کا مطلب ہر دو نے احتیاط سے کام لینے کی کوشش کی ہے ۔ ہندوستان کے ہر دو ممالک امریکہ اور ایران سے اچھے تعلقات ہیں اور وہ دونوں ( امریکہ ، ایران ) سے اپنی دوستی کے حوالے سے کشیدگی کو کم کرنے میں معاون رول ادا کرے تو صورتحال میں بہتری آنے کی امید کی جاسکتی ہے ۔ جہاں تک ہندوستان کے دیگر مسائل کا تعلق ہے اس پر وزیر خارجہ ہند جئے شنکر نے امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ کی توجہ مبذول کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ ہندوستان کی دیگر شکایتوں میں ایک شکایت H1-B ویزے کو لے کر بھی ہے ۔ امریکہ میں ہندوستانی سافٹ ویر انجینئرس اور دیگر اعلیٰ صلاحیتوں اور ماہرین کے لیے ورک پرمٹ کے ویزے کے مسئلہ کو حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگرچیکہ دونوں ملکوں کے اپنے مفادات ہیں لیکن فطری طور پر بعض تنازعات اور مسائل کو حل کرنے کے لیے امریکہ کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔ اس لیے امریکہ کو سفارتی سطح پر چند مسائل کو حل کرنے میں دیر نہیں کرنا چاہیے ۔ دونوں وزرائے خارجہ کی یہ ملاقات اور امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پامپیو کے 3 روزہ دورہ ہند کے مثبت نتائج برآمد ہوں تو دونوں ملکوں کے تعلقات مزید مستحکم ہوں گے ۔ ہندوستانیوں کے H1-B ویزا کے مسئلہ کی یکسوئی کے علاوہ دہشت گردی سے نمٹنے ، ہندوستانی برآمدات کے لیے ڈیوٹی فری قواعد واپس لینے صدر ٹرمپ کے فیصلہ کو واپس لیا جائے اور ہندوستان بھی 29 امریکی اشیاء پر عائد کردہ اضافی شرحوں کو واپس لینے پر غور کرے تو ماباقی دیگر مسائل بھی حل ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے ۔۔