مایاوتی ۔ اکھلیش اتحاد میں کانگریس کیلئے دروازے بند

   

محمد جسیم الدین نظامی
اتر پردیش میں مایاوتی اور اکھلیش یادو کی جماعتوں بی ایس پی اور سماج وادی پار ٹی نے نشستوں کی تقسیم کرلی ہے جبکہ اپنے وعدہ کے مطابق مایاوتی نے امیٹھی اور رائے بریلی کو کانگریس کیلئے چھوڑ دیا ہے حالانکہ یہ پارلیمانی حلقے برسوں سے کانگریس کا گڑھ رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ تین نشستیں اجیت سنگھ کی راشٹریہ لوک دل کو دی جائیں گی۔ بہر حال کانگریس کواُمید تھی کہ مایاوتی اور اکھلیش یادو اس اتحاد میں کانگریس کو آخری لمحات میں شامل کرلیں گے۔ لیکن دونوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ ریاست سے لوک سبھا کی 80 نشستوں میں سے 75پر اپنے امیدوار کھڑا کرنے کا اعلان کردیا اور صرف دو نشستیں کانگریس، 3 نشستیں اجیت سنگھ کی پارٹی کیلئے چھوڑ دی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مایاوتی کی بی ایس پی 38اور اکھلیش یادو کی سماج وادی پارٹی 37 نشستوں پر مقابلہ کرے گی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ سیاسی اعتبار سے اتر پردیش کی قومی سیاست میں سب سے زیادہ اہمیت ہے اور دہلی میں اقتدار کا راستہ اتر پردیش سے ہوتے ہوئے ہی جاتا ہے۔ اگرچہ صدر کانگریس راہول گاندھی نے ریاست کی تمام 80 لوک سبھا نشستوں پر مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن کانگریس میں ایک ایسا گوشہ ہے جسے ہنوز امید ہے کہ سیاسی میدان میں پرینکا گاندھی کے داخل ہونے کے بعد مایاوتی اپنے فیصلہ پر غور وفکر کریں گی تاہم ایسا نہیں ہوا۔ مایاوتی نے چھتیس گڑھ میں کانگریس کے سابق لیڈر و سابق چیف منسٹر اجیت جوگی کی پارٹی سے اتحاد کیا تھا لیکن ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں چھتیس گڑھ میں کانگریس نے شاندار کامیابی حاصل کرکے بی جے پی ، بی ایس پی اور اجیت جوگی کی پارٹی کو بری طرح پچھاڑ دیا تھا۔ مدھیہ پردیش میں بھی کانگریس نے مایاوتی کی غیر ضروری شرائط قبول نہ کرتے ہوئے مایاوتی کو شرمندہ کیا تھا۔ اس ریاست میں بھی کانگریس کو کامیابی حاصل ہوئی۔ راجستھان اسمبلی انتخابات میں بھی کانگریس نے کامیابی حاصل کرکے خود کو مضبوط پارٹی بلکہ مرکز و ریاستوں میں بی جے پی کی اصل مخالف پارٹی ثابت کیا۔ اگر مایاوتی اتر پردیش میں ایس پی سے کئے گئے اتحاد میں کانگریس کو بھی شامل کرلیتی تو بی جے پی یقینی طور پر 10 تا15 نشستوں تک ہی محدود ہوسکتی ہے۔ لیکن مایاوتی جس انداز میں فیصلہ کررہی ہیں اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ بالواسطہ طور پر بی جے پی کو فائدہ اور سیکولر طاقتوں کو نقصان پہنچارہی ہیں۔

مایاوتی اور اکھلیش یادو کی پارٹیوں کے درمیان نشستوں کی تقسیم پر جو معاہدہ ہوا ہے اکھلیش یادو کی پارٹی چند کلیدی شہری نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرے گی۔ ان علاقوں میں لکھنؤ، کانپور، الہ آباد اور جھانسی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا حلقہ پارلیمان وارانسی اور یوگی آدتیہ ناتھ کا گڑھ سمجھا جانے والا حلقہ گورکھپور شامل ہے جہاں سے فی الوقت پارلیمنٹ میں سماج وادی پارٹی نمائندگی کرتی ہے۔ دوسری طرف مایاوتی کی پارٹی نے میرٹھ، آگرہ، گوتم بدھ نگر (نوئیڈا ) علیگڑھ اور سہارنپور جیسے حلقوں سے مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مایاوتی نے کانگریس کے خلاف موقف اختیار کرتے ہوئے بی جے پی امیدواروں کی کامیابی کی راہ ہموار کی ہے۔ کانگریس کے ساتھ اگر یہ دونوں جماعتیں اتحاد کرتی تو بی جے پی کی حالت بری ہونے کے پورے پورے امکانات پائے جاتے۔ دوسری جانب ایسا لگتا ہے کہ اکھلیش یادو اور ان کے والد ملائم سنگھ یادو میں بھی کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں کیونکہ ملائم سنگھ یادو نے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں شامل رہنے کے باوجود پارلیمنٹ میں یہ کہکر سب کو حیران کردیا کہ ان کی خواہش ہے کہ نریندر مودی دوبارہ وزیر اعظم بنیں ۔ ملائم سنگھ جس وقت ان خیالات کا اظہار کررہے تھے ان کے بازو ہی صدر یو پی اے سونیا گاندھی بیٹھی ہوئی تھیں وہ بھی ملائم سنگھ کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئیں اور شاید سوچنے لگیں کہ کہیں ملائم سنگھ کی ذہنی حالت تو خراب نہیں ہوگئی؟۔ جہاں تک مایاوتی اور اکھلیش کی پارٹیوں کے اتحاد کا سوال ہے ملائم سنگھ اس کے خلاف ہیں اور انہیں کھلے طور پر مایاوتی کے ساتھ اتحاد کی مخالفت کی ہے جس سے ان کے فرزند اکھلیش یادو کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ 79 سالہ ملائم سنگھ یادو سوال کرتے ہیں کہ سماج وادی پارٹی کو آخر کون ختم کررہے ہیں؟ اس سوال کا خود جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے اپنے ہی پارٹی کو ختم کررہے ہیں۔ سماج وادی بہت ہی مضبوط پارٹی تھی جس کے نتیجہ میں ہم نے تین مرتبہ اپنے بل بوتے پر حکومت قائم کی اور تینوں مرتبہ میں ( ملائم سنگھ یادو ) چیف منسٹر کے عہدہ پر قائم رہے اور میں نے وزیر دفاع کے اہم عہدہ پر خدمات بھی انجام دی ہیں۔ ملائم سنگھ کا یہ بھی سوال تھا کہ آخر ان کے بیٹے اکھلیش نے نصف نشستیں مایاوتی کو کیوں دیں؟۔ ملائم سنگھ یادو کا دعویٰ ہے کہ مایاوتی کی بی ایس پی کے مقابل سماج وادی پارٹی زیادہ مضبوط ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ پچھلے دو برسوں سے ملائم سنگھ یادو سرگرم سیاست سے دور دکھائی دیتے ہیں اور اکھلیش کے ساتھ ان کے اختلافات ہیں جنہوں نے 2017 کے یو پی اسمبلی انتخابات سے قبل پارٹی کی کمان اپنے والد سے چھین لی تھی ۔ اکھلیش سے ناراض ملائم سنگھ یادو کے چھوٹے بھائی شیو پال یادو نے ایس پی کو خیر باد کہکر اپنی علحدہ سیاسی جماعت قائم کرلی ہے۔