متوفی کی بیوہ نے بہارام پور حملہ آوروں کے پاگل پن کے دعوے کو مستر د کردیا۔’ہجومی تشدد کاشکار گھر چلانے کا واحد ذریعہ تھا‘

,

   

بہارام پور ہجومی تشد د میں ہلاک ہونے والے کبیر شیخ کی بیوہ اکلیمابی بی شہزاد پور میں جمعرات کے روز نے اپنے کنبے کی کچی جھونپڑی کے مٹی کے فرش پر بیٹھی تھیں اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھیں کہ وہ کس طرح”چوری اورپاگل پن“ کا ملزم ہوسکتا ہے۔

اکلیما نے یاد کرتے ہوئے کہاکہ ”صبح کے وقت کسی معمولی کام سے گھر کے باہر گئے میرے شوہر چہارشنبہ کی دوپہر تک واپس گھر نہیں لوٹے تھے جس کی وجہہ سے میں کافی پریشان تھی۔ پانچ بجے کے قریب کاکچھ وقت تک میرے پڑوسی سلیماں ائی اور اس نے بہارام پور میں جو دیکھا وہ سنایا“۔

مذکورہ 29سالہ بیوہ جو دسویں جماعت کے بعد تعلیم ترک کرچکی ہیں کی دوبیٹیاں ایک کی عمر بارہ سال اور دوسری کی عمر سات سال کی ماں ہیں۔

بہارام پور کے ایک کلینک کے اندر چہارشنبہ کے روز کبیر خان کو وہاں کے ملازمین نے ”مداخلت کار“ قراردیتے ہوئے اس قدر پیٹا کے ان کے موت واقعہ ہوگئی اور یہ بھی الزام لگایاکہ کبیر شیخ نے ان پر ”کرسیوں سے حملہ کیا“تھا۔جمعرات کے روز کلینک کے مالک پچاس سالہ بورال اور 55سالہ ملازم رنجیت بسواس کوگرفتار کرلیاگیاتھا۔

کبیر کا قتل ایسے وقت میں ہوا ہے جب پچھلے ہفتہ بنگال مخالف ہجومی تشدد بل کو منظوری دی گئی ہے او راس میں سخت سزائیں جیسے موت کی سزاء کو بھی قانون میں شامل کیاگیاہے۔

اس واقعہ کے بعد سے یہ اندازہ لگانے میں مشکل نہیں ہوگی کہ کس طرح کمزور طبقات کو ہجومی تشد د کانشانہ بنایاجارہا ہے‘

حالانکہ ریاستی حکومتوں کی جانب سے ہجومی تشدد کو روکنے کے لئے قانون بنانے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔شہزاد پور میں کبیر کی نعش بہارام پور جودس کیلومیٹر دور ہے چہارشنبہ کی رات لائی گئی اور تجہیز وتکفین کاکام پورا کیاگیا۔

جمعرات کے روز پڑوسی اوررشتہ داروں نے کبیر کو یادکرتے ہوئے کہاکہ وہ ایک ”مخلص‘ والا مرد تھا‘ جوکلینک اسٹاف کی جانب سے”پاگل حملہ آوار جس نے کلینک میں تور پھوڑ مچائی“ کے حوالے سے بنائی جانے والی شبہہ کے عین برعکس بات ہے۔

ایک پڑوسی نے کہاکہ ”کبیر نے لیبر کے طور پر پانچ سال سعودی عربیہ میں بتائے ہیں۔ اسی سال فبروری میں واپس لوٹا اور مستری کاکام شروع کیاتھا“

۔ ماہانہ 8سے10ہزار روپئے کی وہ کمائی کرتے تھے بیوی اور بیٹیوں کا ساتھ دیتا۔متوفی کی بیوہ نے کہاکہ ”ہم خوف اورمایوسی میں زندگی گذار رہے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کیاہونے والا ہے۔

ہمیں ان کی چیزوں کے ساتھ رہتے جوکبیر لے کرآتے تھے“۔ بڑی بیٹی مدرسہ میں زیر تعلیم ہے اور چھوٹی بیٹی مقامی پرائمری اسکول میں تعلیم حاصل کررہی ہے۔

جمعرات کے روز بہارام پور کے کلینک میں کی گئی ابتدائی تحقیقات میں کبیر کے پاگل پن کے متعلق ملازمین کے بیان میں تال میل نہیں دیکھائی دیا۔

ایک پولیس افیسر نے کہاکہ”یہ تو ہوگیا کہ کبیر بہارام پور کچھ آوزارکی خریدی کے لئے آیاتھا جس کا استعمال تعمیر کاموں میں ہوتا ہے اور وہ ان کااستعمال گاؤں میں انجام دینے والے کاموں میں کرنے والا تھا۔ ہمیں شبہ ہے کہ وہ کلینک میں اس لئے آیاکیونکہ وہ بیمار ہے۔

ابتدائی جانچ میں یہ پتہ چلا ہے کہ کبیراورکلینک عملے کے درمیان میں کچھ جھڑپ پیش ائی ہے“۔ بیوہ کا کہنا ہے کہ صبح 9بجے کے قریب کبیر گھر ائے اورناشتہ کرنے کے بعد وہ کچھ اوزارخریدنے کے لئے بہارام پور جانے کی بات کہہ کر روانہ ہوگئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ کلینک اسٹاف نے اس کے چیمبر میں چہارشنبہ کے روز کبیر کی بری طرح پیٹائی کی۔مذکورہ افیسرنے کہاکہ ”ہماری جانچ میں با ت سامنے ائی ہے کہ شروعات میں کچھ جھڑ پ ہوئی‘ کبیر نے خود کو بچانے کے لئے چیمبر میں بند کرلیا اور اس وقت دروازہ کھولنے کے لئے راضی ہوا جب ٹریفک پولیس جوان کے دروازہ کھٹکھٹایا۔

مگر ایسا لگ رہا ہے کہ کلینک کے کچھ عملے نے کانسٹبل کو درکنار کرکے پولیس کی بھاری جمعیت کی آمد سے قبل کبیر کی بے رحمی کے ساتھ پیٹائی جس کی اس کی موت واقعہ ہوگئی تھی“