مجموعہ قوانین اسلامی(دفعہ وار مسلم پرسنل لا)سلسلہ نمبر: 2

,

   

مجموعہ قوانین اسلامی(دفعہ وار مسلم پرسنل لا)سلسلہ نمبر: 2

 باب: قوانین وارثت

     ترکہ پانے کی تین شرطیں ہیں:

 دفعہ (433):

(۱) مورث( وہ شخص جس سے ورثہ یا ترکہ ملے) کی موت، حقیقی(آنکھوں سے مردہ حالت میں دیکھ لیا ہو) ہویا حکمی(غائب یا گم ہوجانے کی وجہ سے قاضی موت کا فیصلہ کردے) کا یقین یا غالب گمان ہونا۔

(۲) مورث کی موت کے وقت وارثوں کی زندگی، حقیقی ہویا تقدیری(جیسے حمل نطفہ کی شکل میں ہو تو اسے باحیات مانا جاتاہے) کا یقین یا ظن غالب ہو۔

 (۳)ارث(وراثت) کی جہت کا علم، یعنی اس بات کا علم کہ کون کس بنیاد پر وارث ہورہا ہے۔

_تشـریح:_

(الف). کبھی کسی کی موت بالمشاہدہ معلوم ہوتی ہے، اور اس طرح میت کی موت کا یقینی علم ہوجاتا ہے، اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص مفقود (لاپتہ) ہے، اس کی حیات و موت کے متعلق کچھ خبر نہیں ہوتی، تو جب تک اتنی مدت نہ گزرجائے جس میں اس مفقود (لاپتہ) شخص کے ہم عمر مر جائیں اس وقت تک اس کی موت کا نہ یقین ہوسکتا ہے اور نہ ظن غالب، اس لئے اس کا مال وارثوں میں تقسیم نہیں ہوگا، لیکن اب اتنی مدت گزرجاتی ہے تو پھر اس مفقود شخص کی موت کا بھی ظن غالب ہوجاتا ہے، تو اب اس کا مال بھی اس کے وارثوں میں تقسیم ہوگا۔

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی حادثہ کے موقع پر جس میں بہت سی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں کوئی شخص موجود تھا، حادثہ کے بعد انتظار اور تلاش و جستجو کے باوجود اس کا کچھ پتہ نہیں چلا، تو ایسی صورت میں یہی گمان غالب ہوتا ہے کہ اس حادثہ میں اس کی بھی موت ہوگئی، چنانچہ اسے میت قرار دے کر اس کا مال اس کے وارثوں میں تقسیم کردیا جائے گا۔

(ب).کوئی میت اپنی حاملہ بیوی کو چھوڑ کر مرجائے اور وہ عورت اس مدت میں زندہ بچہ کو جنم دے جس کے اندر بچہ ثابت النسب(ترکہ چھوڑنے والے سے نسب ثابت) ہوا کرتا ہے، تو وہ بچہ اپنے متوفی(مرے ہوئے) باپ کا وارث ہوگا، اسی طرح وارث و مورث ایک ساتھ جل کر ، ڈوب کر یا دب کر مرجائیں اور پتہ نہ چلے کہ ان میں کس کی موت پہلے اور کس کی بعد میں ہوئی تو ایسی صورت میں بھی کسی ایک کی موت کے وقت دوسرے کی زندگی کا ظن غالب نہیں ہوسکتا ، اس لئے مرنے والوں میں سے کوئی کسی کا وارث نہیں ہوگا، بلکہ تمام مرنے والوں کا مال ان کے زندہ وارثوں کے درمیان تقسیم ہوگا۔

(ج). چونکہ وارثوں کی مختلف حیثیتیں ہوتی ہیں، کسی میں قرابت نسبی(نسب کی وجہ سے) ہوتی ہے، کسی میں قرابت سببی(کسی سبب کی وجہ سے) اور کسی میں حکمی(حکم کے درجے میں)، پھر قرابت نسبی رکھنے والوں میں بعض ذوی الفروض(وہ ورثاء جو شرعی اعتبار سے ایسا معین حصہ حاصل کرتے ہیں جس میں کوئی کمی یا بیشی نہیں ہوسکتی ۔ایسے معین حصے جو قرآن کریم میں ذکر کئے گئے ہیں) ہوتے ہیں بعض عصبہ(وہ ورثاء جو میراث میں غیر معین حصے کے حقداربنتے ہیں، یعنی اصحاب الفروض کے حصوں کی ادائیگی کے بعد باقی ساری جائیداد کے مالک بن جاتے ہیں)، اور بعض ذوی الارحام(وہ رشتے دار جو صاحب الفرض اور عصبہ میں سے کوئی وارث نہ ہونے پر میراث میں شریک ہوتے ہیں جیسے چچا، بھتیجے اور چچازاد بھائی وغیرہ)، اور ان میں بھی فرق مراتب(مرتبہ کا فرق) اور تقدم وتأخر ہے، کہ بعض قرابت داروں کے حصے دوسرے کی موجودگی میں کبھی کم اور کبھی ختم ہوجاتے ہیں، اس لئے وارثوں کی ان بنیادی حیثیتوں کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے، جن کی تفصیلات اپنے اپنے موقعوں پر آرہی ہیں۔

(د). وارث ومورث کے درمیان کبھی زوجیت کی بنیاد پر قرابت سببی ہوتی ہے، کبھی نسبی خاندان کی بنیاد پر قرابت نسبی، اور کبھی خاص شرطوں کے ساتھ معاہدہ کے نتیجہ میں قرابت حکمی ہوتی ہے، شریعت کی اصطلاح میں اس معاہدہ کو ’’عقد موالاۃ‘‘ کہا جاتا ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے سے یہ کہے کہ’’ تو میرا دوست ہے، اگر اپنی زندگی میں کبھی ایسا کام کروں جس پر دیت لازم آئے تو اس دیت کی ادائیگی تم پر لازم ہوگی، اور میرے مرنے کے بعد میرے تمام مال کے تم ہی وارث ہوگے‘‘ ، اور دوسرے نے اسے قبول کرلیا، تو اس معاہدہ کے نتیجہ میں ان دونوں کے درمیان ایک خاص قسم کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے، جسے شرعاً قرابت حکمی کہا جاتا ہے، اور اس طرح وارث بننے والے کو ’’مولی الموالاۃ‘‘ کہتے ہیں۔

اس معاہدہ کے صحیح ہونے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ معاہدہ کی پیش کش کرنے والا شخص آزاد اور مجہول النسب(جس کے نسب میں شبہ ہو) ہو، اگر کوئی شخص اپنے کسی بھی نسبی رشتہ دار حتیٰ کہ اپنے ذوی الارحام میں سے بھی کسی کے ہوتے ہوئے ایسا معاہدہ کریگا تو اس کا کوئی اعتبار نہ ہوگا، اور اس معاہدہ کے نتیجہ میں وہ دوست اس کا وارث نہیں بنے گا۔

واضح رہے کہ یہ معاہدہ دونوں طرف سے بھی ہوسکتا ہے، بشرطیکہ دونوں مجہول النسب اور آزاد ہوں، اور اس صورت میں دونوں ایک دوسرے کے ’’مولی الموالاۃ‘‘ کہلائیں گے۔

 منجانب: سوشل میڈیا ڈیسک آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ