مجھے ہندوتوا کی ضرورت نہیں

   

پی چدمبرم

میری پیدائش اس گاؤں میں ہوئی جو اب سیوا گنگائی ضلع میں واقع ہے۔ مجھے اس بات پر بھی فخر ہے کہ مشہور ٹامل شاعر کنیان پنگن رانار کی پیدائش بھی اس گاؤں سے چند کیلومیٹر پر واقع ایک اور گاؤں پنگن رام (اب جسے ماہی بالن پٹی کہا جاتا ہے) میں ہوئی۔ یہ گاؤں بھی سیواگنگائی ضلع میں واقع ہے۔ جہاں تک کنیان پنگن رانار کا سوال ہے، وہ ٹامل زبان کے مشہور و معروف شاعر تھے۔ جو چھٹویں صدی قبل مسیح اور پہلی عیسوی کے درمیان سنگم دور میں رہتے تھے۔ انہوں نے 13 سطری ایک نظم لکھی ’’یادم اورے یاورم کیلیر‘‘ جیسے لفظوں سے شروع ہوتی ہے۔ اس کا سیدھا سادھا ترجمہ یہ ہے ’’ہر جگہ میرا گاؤں ہے، ہر کوئی میرا عزیز ہے۔ اس نظم میں ادب کے کئی گوہر نایاب موجود ہیں۔ آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ کانیان پنگن رانار کی اس نظم کی پہلی سطر اقوام متحدہ کے دفتر کی دیواروں پر کندہ کی گئی ہے۔ اس نظم میں سمجھا جاتا ہے کہ 2000ء سال قبل اور اس سے پہلے ٹامل باشندوں کا جو طرز حیات ہوا کرتا تھا ، اس کا اظہار کیا گیا۔
لفظ ’’ہندو‘‘
ٹامل ادب میں اس دور کے مذاہب کو سیوم اور ویشنوم ، سمانم (جین ازم )،بودھم (بدھ ازم) کہا جاتا تھا، لیکن آخرالذکر دو مذاہب بعد میں آئے۔ اہم بات یہ ہے کہ قدیم ٹامل ادب میں ہندو اور ہندو ازم جیسے الفاظ نہیں پائے گئے۔ مسٹر ششی تھرور کے مطابق لفظ ہندو کسی بھی ہندوستانی زبان میں موجود نہیں تھا، لیکن بیرونی باشندوں نے ہندوستانیوں کو یہ نام دیا اور ہندوستانی باشندوں کی تعریف کیلئے لفظ ’’ہندو‘‘ کا استعمال شروع ہوگیا۔ اکثر ٹامل باشندے ان خاندانوں میں پیدا ہوئے جو ہندوازم پر عمل کرتے تھے۔ ہندوازم پر ٹامل پیرو کار کئی خداوں کی پرستش یا عبادت کرتے (جن میں مواضعات کے بھگوان بھی شامل ہیں)
یہ لوگ پونگل اور دیپاولی جیسے تہوار مناتے، ساتھ ہی پونگل، پال کڈم اور کاواڑی جیسے رسوم ادا کرتے، ٹامل باشندوں نے ہندوازم پر عمل کرنے کے باوجود صدیوں سے ان لوگوں کے ساتھ زندگی گزاری جو دوسرے مذاہب کے ماننے والے تھے۔ خاص طور پر زائد از 2000 سال سے ٹامل ہندو باشندے عیسائیوں اور 800 سال سے زائد عرصہ سے مسلمانوں کے ساتھ زندگی گزاری۔ مسلم اور عیسائی اسکالرس اور ادیبوں نے ٹامل ادب اور ٹامل زبان کے فروغ میں غیرمعمولی کردار ادا کیا۔ میری معلومات کے مطابق کسی بھی ٹامل ہندو راجہ نے دوسرے مذاہب پر ہندو مذہب کی برتری اور اس کی اجارہ داری کیلئے کوئی جنگ نہیں چھیڑی۔ اب یہ دیکھیں کہ آخر ہندوازم کیا ہے؟ یہ دراصل ایک قابل احترام مذہب ہے۔ اگرچہ میں نے اس سلسلے میں ڈاکٹر ایس رادھا کرشنن اور سوامی وویکانندا کی کتب کا مطالعہ کیا ہے لیکن کبھی یہ ضروری نہیں سمجھا کہ میں نے جو کچھ پڑھا سنا جمع کیا اور جس کا انتخاب کیا، اس بارے میں انکوائری کروں، مجھے ایسا ہی لگا جیسے ہندوازم کیا ہے؟ اس کا چند سیدھے سادھے پیراگراف میں جواب دیا جاسکتا ہے۔
٭ ہندوازم یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ صرف وہی واحد سچا مذہب ہے۔ سوامی وویکانندا نے کہا ’’مجھے فخر ہے کہ میں ایک ایسے مذہب سے تعلق رکھتا ہوں جس نے دنیا کو رواداری اور عالمی قبولیت دونوں سکھائے ہیں۔ ہم نہ صرف عالمی رواداری میں یقین رکھتے ہیں بلکہ تمام مذاہب کو سچے مذاہب کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ ہندوازم میں ایک کلیسا (چرچ) ایک پوپ، ایک پیغمبر ایک مقدس کتاب یا ایک رسم نہیں ہوتی بلکہ یہ تمام کے تمام بے شمار ہوتے ہیں اور ہر ہندو ان میں کسی کو بھی پسند کرنے کسی کا بھی انتخاب کرنے یا پھر تمام کو رد کرنے کیلئے آزاد ہے۔ بعض اسکالرس کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ایک ہندو ہونے کے ساتھ ساتھ خدا میں یقین رکھنے والا یا لاادری یا ملحد ہوسکتا ہے۔ اپنے سکیولر پہلوؤں کے لحاظ سے ہندوازم شادی بیاہ یا جانشینی ؍ ترکہ کا ایک نظام پیش نہیں کرتا، ہندو قانون اصلاحات (1955-56) نے اس میں یکسانیت لانے کی کوشش کی لیکن آج بھی ہزاروں تغیرات یا فرق ان میں پائے جاتے ہیں۔
ہندوازم کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ ہندوازم ایک ہندو کو دوسرے خداؤں اور سنتوں کی عبادت کی اجازت دیتا ہے۔ ہزاروں ہندو ویلنگانی میں واقع مقدس مقام جاتے ہیں اور امرتسر میں واقع گولڈن ٹمپل میں پوجا بھی کرنے ہیں یا درگاہ اجمیر شریف کی زیارت بھی کرتے ہیں۔ دوسری طرف مورخین اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ آیا شرڈی کے سائی بابا ایک مسلمان تھے یا ایک ہندو دراصل وہ دونوں تھے۔ سائی بابا ہندو اور مسلمان میں کوئی فرق یا امتیاز نہیں کرتے تھے۔ ان کا مشہور قول ہے ’’اللہ مالک‘‘ ۔ سب کا مالک ایک ہے۔
ڈاکٹر ونپڈی ڈونگر نے جو یونیورسٹی آف شکاگو میں مذاہب کی تاریخ کی پروفیسر ہیں جنہوں نے 50 برسوں تک سنسکرت اور ہندوستان کے اس قدیم مذہب کا مطالعہ کیا ہے، وہ ہندوازم کے بارے میں کہتی ہیں: ’’صدیوں سے اسکالرس یہ جانتے ہیں اور کہتے آرہے ہیں کہ زمانے قدیم کے ہندوستانی باشندے گائے کا گوشت کھایا کرتے تھے۔ ڈاکٹر ونیڈی ڈونی گر نے اس ضمن میں رگ وید برہمناس کے ساتھ ساتھ یجناوالکیا اور ایم این سرینواس کے حوالے دیئے اور بتایا کہ اکثر ہندو میٹ، مچھلی اور انڈے کھاتے ہیں۔ بیف (گائے کا گوشت) نہیں کھاتے۔ اکثر ہندو سبزی خور ہیں۔ محترمہ ڈاکٹر ڈونی نگر نے یہ نکتہ اٹھایا کہ گاندھی جی نے کبھی بھی ذبیحہ گاؤ پر پابندی کیلئے زور نہیں دیا۔ انہوں نے ایک اور حوالہ دیا جس میں گاندھی جی نے کہا تھا :’’میں کسی کو ذبیحہ گاؤ سے گریز کیلئے اس وقت تک مجبور نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ خود اس پر آمادہ ہو۔ یہ ایسی بات نہیں کہ انڈین یونین میں صرف ہندو ہی نہیں رہتے بلکہ اس سرزمین پر مسلمان، پارسی، عیسائی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں تاہم کئی ایسے مسلمان اور عیسائی ہیں جو بیف نہیں کھاتے اور جو گوشت کھاتے ہیں، وہ ہرگز ہرگز ریڈمیٹ نہیں کھاتے۔
مجھے ہندوتوا کی ضرورت نہیں
1936ء میں ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے اپنے مشہور و تاریخی خطاب میں ذات پات کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دی تھیں۔ انہوں نے یہ خطاب انڈین نیشنل کانگریس (جس کا قیام 1885ء میں عمل میں آیا تھا) اور انڈین نیشنل سوسیل کانفرنس (جس کا قیام 1887ء میں عمل میں آیا تھا) کے درمیان تنازعہ کے بعد کیا تھا۔ بہرحال مسٹر ششی تھرور کی طرح میں بھی ایک ہندو پیدا ہوا۔ ہندو کی حیثیت سے بڑا ہوا اور زندگی بھر میں نے خود کو ایک ہندو کہا۔ میں ملک کے اُن 81.6% ہندوؤں میں سے ایک ہوں جن کے بارے میں PEW سروے میں کہا گیا کہ یہ تمام ہندو کی حیثیت سے پیدا ہوئے اور سردست ہندو کے طور پر اپنی شناخت ظاہر کی۔ اس لئے میں اپنے ہندوازم کے ساتھ خوش ہوں، ایسے میں مجھے ہندوتوا کی کیا ضرورت۔