مدھیہ پردیش بھی کرناٹک کی راہ پر ؟

   

ہوا کا چاروں طرف سے دباؤ ایسا تھا
اُکھڑ گئے کئی خیمے پڑاؤ ایسا تھا
کرناٹک انتخابات میں کامیابی کے بعد بلند حوصلوں کے ساتھ کانگریس نے مدھیہ پردیش میں بھی اپنی انتخابی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے ۔ کانگریس کی اپنے طور پر سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں۔ عوام سے رابطے بحال کئے جار ہے ہیں۔ عوام کیلئے مختلف پروگرامس اور گیارنٹیز کا اعلان کیا جا رہا ہے ۔ سماج کے مختلف طبقات کی تائید حاصل کرنے کی کوششیں بھی تیز ہوگئی ہیں۔ بی جے پی اور اس کے زر خرید میڈیا کا الزام ہے کہ کانگریس نے نرم ہندوتوا اختیار کرتے ہوئے انتخابی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے ۔ بی جے پی کا جہاں تک سوال ہے تو وہ تو کھلے عام کٹر ہندوتوا پالیسیوں کو اختیار کئے ہوئے ہے اور اسے ایجنڈہ کو آگے بڑھا رہی ہے حالانکہ یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ مودی کی شخصیت او ر صرف کٹرپسند ہندوتوا نظریات کے ذریعہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا بی جے پی کیلئے بھی اب آسان اور ممکن نہیں رہ گیا ہے ۔ آر ایس ایس نے ہی بی جے پی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ریاستی حکومتوں کو موثر کارکردگی دکھانے کی ہدایت دے اور علاقائی اور ریاستی سطح پر قیادت کو فروغ دے کیونکہ ریاستوں میں مودی کے چہرے پر مسلسل انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا آسان نہیں رہ گیا ہے ۔ اس کے باوجود ہندی بولنے والی ریاستوں میں بی جے پی نے کٹر ہندوتوا کی پالیسی کو برقرار رکھا ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندی پٹی میں کٹر ہندوتوا بی جے پی کیلئے بہت بڑا سہارا ہے ۔ حالانکہ جنوب اور دوسری ریاستوں میں یہ پالیسی موثراور کارگر ثابت نہیں ہوئی ہے لیکن ہندی پٹی میں یہ پالیسی بی جے پی کیلئے معاون ثابت ہوسکتی ہے ۔ اس کے باوجود مدھیہ پردیش میں طویل عرصہ سے بی جے پی کی حکمرانی نے اس کیلئے مسائل پیدا کردئے ہیں۔ اس کے علاوہ کرناٹک میں شاندار کامیابی کے بعد کانگریس کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اورکانگریس سرگرم ہوچکی ہے ۔ مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں حالات بظاہر یکساں بھی نظر آنے لگے ہیں۔ جو صورتحال کرناٹک میں تھی وہی مدھیہ پردیش میں بھی دکھائی دے رہی ہے ۔ کانگریس کا دعوی ہے کہ وہ مدھیہ پردیش میں 150 اسمبلی حلقوں پر کامیابی کے ساتھ اقتدار پر واپسی کرے گی ۔ حالانکہ بی جے پی اس دعوی کو مسترد کر رہی ہے لیکن وہ در پردہ اندیشوں کا شکار ضرور ہے ۔
جس طرح کرناٹک میں بی جے پی نے انحراف کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور پچھلے دروازے سے حکومت پر قابض ہوئی تھی وہی صورتحال مدھیہ پردیش میں بھی ہے ۔ وہاں بھی کانگریس کی کمل ناتھ حکومت کو انحراف کے ذریعہ زوال کا شکار کیا گیا ۔ جیوتر آدتیہ سندھیا کی بغاوت کے نتیجہ میں بی جے پی وہاں پچھلے دروازے سے اقتدار پر قابض ہوئی تھی ۔کرناٹک میں یہ بغاوت اور مکمل اقتدار بھی بی جے پی کیلئے کامیابی کا ضـامن ثابت نہیں ہوا اور مدھیہ پردیش میں بھی کانگریس اسی طرح کا دعوی کر رہی ہے کہ وہ اقتدار پر واپسی کرے گی ۔ جس طرح کرناٹک میں محض پانچ برسوں میں حکومت مخالف لہر عوام میں پیدا ہوگئی تھی اسی طرح مدھیہ پردیش میں 19 سال سے اقتدار پر برقرار بی جے پی کے خلاف رائے عامہ ضرور پائی جاتی ہے ۔ حکومت کی کارکردگی سے ریاست کے عوام بیزار نظر آتے ہیں۔ حکومت اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے دعوے ضرور کر رہی ہے لیکن ان دعووں میں زمینی سطح پر کوئی حقیقت نظر نہیں آ رہی ہے ۔ جس طرح سے کرناٹک میں بی جے پی میں شامل ہونے والے منحرف ارکان میں سے کچھ نے کانگریس میں واپسی کی تھی اسی طرح کی صورتحال مدھیہ پردیش میں بھی پیدا ہونے لگی ہے ۔ جیوتر آدتیہ سندھیا کے ساتھ بی جے پی میں شامل ہوئے ایک رکن ایک بڑے قافلہ اور کئی دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ کانگریس میں واپسی کرچکے ہیں۔ دعوی کیا جا رہا ہے کہ کچھ اور قائدین بھی یہی روش اختیار کرسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ کانگریس نے کرناٹک میں عوام کے بنیادی مسائل کو ان کے ذہنوں میں پیوست کردیا تھا ۔ عوام کے مسائل کی یکسوئی کا وعدہ کرتے ہوئے ان سے کچھ وعدے کئے گئے تھے ۔ ان وعدوں پر حکومت کے قیام کے چند ہفتوں میں آغاز کی کوششیں بھی شروع کردی گئی ہیں۔ جس طرح کرناٹک میں پرینکا گاندھی نے انتخابی مہم میں ذمہ دارانہ رول ادا کیا تھا وہ مدھیہ پردیش کیلئے بھی یہی رول ادا کرنے لگی ہیں۔ وہ کرناٹک کی طرح مدھیہ پردیش کے عوام سے بھی اپنی پارٹی کی گیارنٹیز کا تذکرہ کر رہی ہیں۔ بحیثیت مجموعی کانگریس اسی طرح طرز پر مدھیہ پردیش میں انتخابی تیاریاں کر رہی ہے جس طرح سے کرناٹک میں مقابلہ کیا گیا تھا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ مدھیہ پردیش کے نتائج بھی کیا کرناٹک کی طرز کے ہونگے ؟ ۔
اور اب ٹاملناڈو نشانہ پر
بی جے پی کی جانب سے کسی نہ کسی ریاست پر توجہ کرتے ہوئے وہاں سیاسی جدوجہد کے نام پر حالات کو بگاڑنے سے گریز نہیں کیا جاتا ۔ جنوب میں پہلے کیرالا کو نشانہ بنایا گیا تھا ۔ کرناٹک میں خود بی جے پی اقتدار پر تھی اس کے باوجود نزاعی اور اختلافی مسائل کو ہوا دیتے ہوئے سماج میں عدم اعتماد کی فضاء پیدا کی گئی تھی ۔ اسی طرح تلنگانہ میں بھی حالات کو بگاڑنے کی حتی المقدور کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ اب ٹاملناڈو ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کے نشانہ پر آگیا ہے ۔ کرناٹک میں بی جے پی اقتدار سے محروم ہوگئی ہے لیکن سیاسی وجود اب بھی وہاں برقرار ہے ۔ اسی طرح پارٹی چاہتی ہے کہ جنوبی ریاستوں میں اسے عوام کی تائید حاصل ہوسکے لیکن ابھی تک اسے اس جدوجہد میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے ۔ ٹاملناڈو میں کسی نہ کسی بہانے سے حکومت سے ٹکراؤ کی کیفیت پیدا کی جا رہی ہے ۔ ریاستی وزیر کو مرکزی ایجنسی نے گرفتار کرلیا ۔ انہیں ہارٹ اٹیک پر دواخانہ منتقل کیا گیا ہے ۔ ریاستی بی جے پی کے صدر الگ سے حکومت کے خلاف بیان بازیاں کرتے ہوئے نامناسب ریمارکس کر رہے ہیں ۔اب ٹاملناڈو بی جے پی کے سکریٹری نے فرضی خبریں پھیلانے کی کوشش کی تھی جس پر انہیں گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ انہوں نے ایک صفائی ورکر کی موت سے متعلق ٹوئیٹ کیا جبکہ متعلقہ ضلع پولیس نے اس کی تردید کی ۔ اب انہیں گرفتار کرلیا گیا ہے ۔ اس طرح بی جے پی کسی نہ کسی طرح سے اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کیلئے حالات کو متاثر کرنے سے گریز نہیں کیا جا رہا ہے ۔