مدھیہ پردیش میں پانچ سال قید کے ساتھ ”لوجہاد“ کے خلاف قانون کا نفاذ

,

   

بین مذہبی شادی کی مخالفت میں ہندو دائیں بازو کی تنظیمیں ”لوجہاد“ کے اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں

بھوپال۔کرناٹک اور ہریانہ میں بی جے پی کی زیر قیادت حکومت کی جانب سے ”لوجہاد“ کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کا اعلان کرنے کے

ایک ہفتہ بعد مدھیہ پردیش کے ہوم منسٹر نروتم مشرا نے منگل کے روز کہاکہ ان کی حکومت بہت جلد ”مذکورہ مسئلہ کے حل کے لئے“ ایک قانون لائے گی۔بین مذہبی شادی کی مخالفت میں ہندو دائیں بازو کی تنظیمیں ”لوجہاد“ کے اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں۔

مشرا نے کہاکہ ”لوجہاد“ کو حل کرنے خلاف اگلے اسمبلی اجلاس میں ایک قانون لایاجاسکتا ہے۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ’’اس میں بڑی قید کا قانون ہوگا۔ غیر ضمانتی دفعات کے تحت مقدمات درج کئے جائیں گے اور ملزم اور اس کا ساتھ دینے والے دونوں اصلی ملزم کے طور پر تسلیم کیاجائے گا“۔

شادی کے لئے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کرنے کے متعلق انہوں نے کہاکہ اس کے لئے ایک ماہ قبل کلکٹر دفتر میں درخواست داخل کرنے ہوگی۔

اس سے قبل چیف منسٹر شیو راج سنگھ چوہان نے اس کے خلاف قانون لانے کا اشارہ کیاتھا۔

انہوں نے کہاتھا کہ ”ریاست میں کسی بھی قیمت پر محبت کے نام پر جہاد کو منظوری نہیں دی جائے گی۔

لوجہاد کے خلاف ضروری قانون قواعد لائے جائیں گے“۔

کرناٹک چیف منسٹر بی ایس یدایورپا کے ساتھ ہریانہ کے ہوم منسٹر انل وج نے کہاکہ ان کی حکومتیں ”جبری مذہبی تبدیلی“ پر توجہہ مرکوز کرتے ہوئے اسی طرح کے قانون لانے پر غور کررہی ہے۔

کیا اس طرح کا قانون جائزنہیں ہوگا؟
مذکورہ دستور ہند کے ارٹیکل 21کے تحت اپنی مرضی سے شہری کو شادی کرنے کا حق حاصل ہے۔

ائین کا ارٹیکل 25میں بھی عوامی نظم وضبط‘ اخلاقیات او رصحت‘مشروط مذہب پر اعتماد‘ عمل اور تبلیغ کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔

مذکورہ قانون خصوصی طور پر اس کا تذکرہ نہیں کیاجاتا‘ اسے باطل سمجھا جاسکتا ہے۔

کئی عدالتیں جس میں کیرالا ہائی کورٹ بھی شامل ہیں نے بین مذہبی شادی کے ایک معاملے میں ملوث ہوتے ہوئے اپنے نظریات کو برقرار رکھا ہے۔

اسی سال فبروری میں مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ کو بتایاکہ ”لوجہاد“ کی اصطلاح کسی موجودہ قانون کے تحت متعین نہیں کی گئی ہے اور مرکزی ایجنسی نے ایسے کسی معاملہ کی جانکاری نہیں دی ہے۔