مدھیہ پردیش کانگریس

   

مرے ارادے کا نام ساحل مرے ارادے کا نام طوفان
میں پار اترنا بھی جانتا ہوں میں ڈوب جانا بھی جانتا ہوں
مدھیہ پردیش کانگریس
مدھیہ پردیش میں جمہوری حکومت کو مسمار کرنے کے لئے جن نئے اختیارات بیجا کا استعمال کیا گیا وہ سیاسی تاریخ کے بدترین واقعات میں سے ایک ہے۔ مرکز میں برسراقتدار بی جے پی حکومت نے ریاستوں میں غیر بی جے پی حکومتوں کو کمزور کرنے کے ہتھکنڈے اختیار کرکے ایک ناپسندیدہ سیاسی ماحول کو بڑھاوا دیا ہے کسی سیاسی بحران میں منصفانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے حکومت کے فرائض انجام دینے ہوتے ہیں۔ بی جے پی نے انصاف و اخلاق دونوں کو تہہ بالا کردیا ہے۔ مدھیہ پردیش کی کانگریس حکومت کو اکثریت سے محروم کرتے ہوئے بی جے پی نے کانگریس کے کئی قائدین کے ساتھ سودے بازی کی۔ کانگریس لیڈر جیوتر ادتیہ سندھیا کو ان کے 22 حامی ارکان اسمبلی کے ساتھ کانگریس میں پھوٹ ڈالی گئی۔ سندھیا کو بی جے پی میں شامل کرتے ہوئے مدھیہ پردیش کی کمل ناتھ حکومت کو استعفیٰ دینے کیلئے مجبورکردیا گیا۔ ملک میں جوکچھ سیاسی وفاداری اور بغاوت کے واقعات ہورہے ہیں، غیرصحتمند سیاسی ماحول کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس طرح کی سازشیں کرنے والی پارٹیاں ایک دن خود بھی سازشوں کا شکار ہوتی ہیں۔ مدھیہ پردیش کے سیاسی بحران کو ہر کسی نے دیکھا ہے کہ کس طرح کروڑہا روپئے خرچ کرکے جمہوری طور پر منتخب حکومت کو گرادیا گیا۔ اقتدار کی بھوک نے مدھیہ پردیش کی اپوزیشن بی جے پی کو اس قدر سیاسی اور اخلاقی پستی کا شکار بنادیا کہ اس نے مدھیہ پردیش کے مہاراجہ سندھیا کو 22 لالچی ارکان اسمبلی کے ساتھ بحران کھڑا کردیا۔ نتیجہ میں کمل ناتھ حکومت کو اعتماد کا ووٹ لینے سے قبل ہی استعفیٰ دینا پڑا۔ کمل ناتھ نے اپنی حکومت بچانے کیلئے لمحہ آخر تک کوشش کی۔ باغی ارکان اسمبلی کی تائید حاصل کرنے کیلئے کانگریس نے کچھ وقت کی مہلت حاصل کرنا چاہی لیکن بی جے پی نے سپریم کورٹ میں درخواست داخل کرکے عدالت عظمیٰ کا سہارا لیکر رولنگ جاری کرادی کہ کمل ناتھ حکومت کو جمعہ کے دن 5 بجے شام تک فلورٹسٹ لینا ہوگا۔ بی جے پی جو چاہا وہی ہوا۔ مدھیہ پردیش میں اب 3 مرتبہ چیف منسٹر رہنے والے شیوراج سنگھ چوہان دوبارہ اقتدار حاصل کریں گے لیکن یہ بات سیاسی گوشوں کیلئے عبرتناک ہے کہ کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے والے قائدین کا آج کوئی مقام نہیں ہے۔ بی جے پی نے ہمیشہ کانگریس کو توڑتے ہوئے اس کے قائدین کو اپنی صف میں شامل کیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت سب پر عیاں ہیکہ کانگریس سے چلے جانے والے قائدین کا سیاسی مستقبل تاریک ہی رہا ہے۔ بی جے پی میں سیاسی طاقت و مقام حاصل کرنے کی نیت سے کانگریس چھوڑنے والے قائدین کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ان باغی قائدین کو بی جے پی نے کچھ خاص نہیں دیا ہے۔ کانگریس میں محترم طریقہ سے مقام رکھنے والے قائدین بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کی جوتیوں کے اسیر بن کر رہ گئے۔ جیوتر ادتیہ سندھیا کا بھی یہی حال ہونے جارہا ہے۔ انہوں نے اپنی دیرینہ پارٹی کانگریس کو چھوڑا ہے مگر وہ بی جے پی میں اپنا سیاسی قد بڑھانے میں ناکام ہوں گے۔ ماضی قرب پر نظر ڈالی جائے تو کانگریس میں اعلیٰ عہدوں پر رہنے والے کئی قائدین کو آج بی جے پی میں نظرانداز کردیا جاچکا ہے۔ یہ لوگ کہیں کے نہیں ہیں۔ اترپردیش کی کانگریس کمیٹی کی صدر ریٹا بہوگنا جوشی کو ریاست یوپی کی طاقتور اور مقبول لیڈر مانا جاتا تھا۔ کانگریس میں 24 سال رہنے کے بعد بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد پارٹی ٹکٹ کیلئے بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کے سامنے ہاتھ پھیلاتے بھی دیکھا گیا اس کے باوجود اپنے بیٹے کیلئے بی جے پی ٹکٹ حاصل کرنے میں وہ ناکام رہیں۔ اسی طرح کانگریس کے کئی قائدین جسے جگدمبیکا پال، سنجے سنگھ، سابق چیف منسٹر مہاراشٹرا نارائن رانے، آسام کے سابق صدر کانگریس بھونیشور کلیٹا، سابق ڈپٹی چیف منسٹر جموں و کشمیر منگت رام شرما اور دیگر کئی قائدین کانگریس سے دور ہوکر اپنی شناخت کھوچکے ہیں۔ کئی قائدین اپنی پارٹیوں کے روشن ستارے مانے جاتے تھے لیکن بی جے پی میں شامل ہوتے ہی ان کی سیاسی قسمت زوال کا شکار ہونے لگی۔ بہرحال مدھیہ پردیش میں 3 میعاد تک حکومت کرنے کے بعد بی جے پی کے چیف منسٹر شیوراج سنگھ چوہان نے کانگریس کی حکومت کا اس شدت سے تعاقب کیا کہ اب وہ دوبارہ اقتدار پر فائز ہونے کی تیاری کررہے ہیں۔ مدھیہ پردیش کانگریس کی اس قدر بدترین ناکامی کیلئے خود کانگریس کی ہائی کمان اور مدھیہ پردیش کے بعض سینئر قائدین ذمہ دار ہیں جنہوں نے اپنی پارٹی کیلئے اچھام کام نہیں کیا۔
کوروناوائرس : دنیا مشکل دور سے گذر رہی ہے
کوروناوائرس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ عالم عرب سے لیکر یوروپی یونین امریکہ، جنوبی ایشیامیں وائرس نے دہشت مچا رکھی ہے۔ اب تک 10 ہزار سے زائد اموات اور ڈھائی لاکھ سے زیادہ انسان متاثر ہوئے ہیں۔ سعودی عرب کے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے وائرس کے خلاف جنگ کا اعلان کرتے ہوئے ساری دنیا کے انسانوں کو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنے اور اس وائرس سے نجات کیلئے دعاؤں کی اپیل کی ہے۔ اس کے ساتھ وائرس سے نمٹنے کیلئے تیز تر اقدامات کرنے کا بھی ذکر کیا ہے۔ وزیراعظم ہند نریندر مودی نے بھی ہندوستانی عوام کیلئے آئندہ چند ہفتے نہایت ہی نازک قرار دیئے ہیں۔ وائرس کی وباء کو پھیلنے سے روکنے کیلئے سب سے اہم اور بہترین عمل متاثرہ افراد کا خود کو الگ تھلگ کرلینا ہے۔ جو لوگ وائرس سے متاثر ہورہے ہیں وہ سیلف آئسولیشن میں جائیں۔ صحتمند افراد بھی وائرس سے بچاؤ کے خصوصی انتظامات کریں۔ سعودی عرب سے لیکر ہندوستان تک چین سے لیکر اٹلی، ایران، امریکہ تک وائرس کی دہشت نے خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ وزیراعظم نے ریاستوں کے چیف منسٹرس سے ویڈیو کانفرنس میں صورتحال کا جائزہ لیا۔ ہر ریاست کے چیف منسٹر کی ذمہ داری ہیکہ وہ اپنے طور پر ضروری اقدامات کریں۔ مرکز اور ریاستوں کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم وزیراعظم مودی نے اپنی حکومت کی جانب سے وائرس سے نمٹنے کیلئے ہنگامی اقدامات کا اعلان نہیں کیا۔ انہوں نے صرف عوام کو ہی جنتا کرفیو کے ذریعہ وائرس سے بچنے کی صلاح دی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ دیگر ممالک کے سربراہوں کی طرح ہندوستان میں بھی وائرس سے نمٹنے کیلئے فنڈس مختص کرتے ہوئے ہنگامی اقدامات کرتے۔ اگرچیکہ ہندوستان ابھی کوروناوائرس کی لپیٹ میں آنے والے اثر کے مرحلہ دوم میں ہے اس اسٹیج پر ہی وائرس کو احتیاطی تدابیر کے ذریعہ روکا جاسکتا ہے۔ اگر اسٹیج 3 یا اسٹیج 4 پر وائرس کا اثر پہنچ جائے تو پھر ہندوستانی عوام واقعی مشکل اور نازک حالات کا شکار ہوں گے۔ فی الفور مرکز کی جانب سے جنگی بنیادوں پر بچاؤ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔