مرکزی بجٹ : امیروں پہ کرم، غریبوں پہ ستم

   

پی چدمبرم
بجٹ 2019-20ء مرکزی حکومت کے بجٹوں کے معاملے میں معمول سے کہیں جلد ہی آشکار ہوگیا ہے۔ عوام میں کسی بھی تجویز کے تعلق سے ’گفتگو‘ نہیں ہورہی ہے۔ امیروں کو اطمینان ہے کہ انھیں چھوڑ دیا گیا ہے۔ متوسط طبقہ مایوس ہے کیونکہ اُن پر صرف نئے بوجھ ڈال دیئے گئے ہیں۔ غریبوں نے اپنی قسمت کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ اوسط جسامت کے کارپوریٹ ادارے (4000) ان کے حق میں معمولی فوائد کا جائزہ لے رہے ہیں۔ بجٹ پر سرگرمی سے بحث کرنے والے صرف ماہرین معاشیات اور ایڈیٹوریل رائٹرز ہیں… اور دونوں کو مرکزی حکومت نے حقارت سے نظرانداز کردیا ہے۔ (وزیر فینانس نے جرنلسٹوں کو پیشگی وقت لئے بغیر وزارت فینانس میں داخلے سے روک دیا ہے!)
کس شعبہ کی دھوم ہے؟
حکومت نے سال 2019-20ء میں جی ڈی پی کی 7 یا 8 فی صد شرح ترقی حاصل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ محض 1 فی صد کا فرق نہیں ہے۔ یہ لگاتار اوسط ترقی اور ممکنہ طور پر تیزی سے ترقی کے درمیان فرق ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ چیف اکنامک اڈوائزر کے تحت اکنامک ڈیویژن فینانس سکریٹری کے تحت آنے والے بجٹ ڈیویژن سے ربط میں نہیں رہتا ہے۔ زیادہ تر مبصرین نے نوٹ کیا ہے کہ بجٹ تقریر میں کوئی اشارہ نہ ملا کہ آیا حکومت اوسط ترقی (7 فی صد) پر مطمئن ہے یا اونچی اور تیزی سے ترقی (8+ فی صد) کا مقصد رکھتی ہے۔ مجھے شبہ ہے کہ اول الذکر معاملہ ہے۔

مالی سال
GFCF
(جی ڈی پی کے فیصد کے مطابق)
2007-08
32.9
2014-15
30.1
2015-16
28.7
2016-17
28.2
2017-18
28.6
2018-19
29.3
اونچی اور تیزی سے ترقی کیلئے ترقی کے تمام چار انجنوں (بہ معنی شعبے) کا بھرپور توانائی کے ساتھ اور پوری قوت کے ساتھ آگے بڑھنا درکار ہوتا ہے۔ برآمدات (مرکنڈائز) نے 315 بلین امریکی ڈالر کا نشانہ جو 2013-14ء میں طے کیا گیا تھا، 2018-19ء میں عبور کیا ہے اور پھر بھی شرح ترقی پیوستہ سال کے مقابل اوسط 9 فی صد رہی۔ حکومتی مصارف برائے آمدنی کھاتہ (سود کی ادائیگی اور گرانٹس کی خالص رقم) 2018-19ء میں جی ڈی پی کا صرف 7.18 فی صد رہے۔ خانگی کھپت کا انحصار متعدد پہلوؤں پر ہوتا ہے بشمول افراط زر کے تعلق سے اندازے، روزگار، معاشی خلل، سکیورٹی وغیرہ۔ کسی بھی گھر والے کیلئے دائمی مخمصہ ہوتا ہے کہ کیا میں بچت کروں یا کیا مجھے خرچ کرنا چاہئے؟ مثال کے طور پر خانگی کھپت میں گراوٹ ہی ہے جس کا آٹوموبائلز اور ٹو وہیلرز کی فروخت بہت زیادہ اثر پڑا ہے۔
سرمایہ کاری کا جمود
ایسی صورتحال میں سرمایہ کاری نہیں ہوتی ہے۔ معاشی سروے نے انوسٹمنٹ کے انجن پر اپنا بھروسہ ظاہر کیا ہے اور کچھ حد تک کم خانگی کھپت پر بھروسہ کیا ہے۔ کسی معیشت میں سرمایہ کاری کی معمول کی پیمائش ’گراس فکسڈ کیاپٹل فارمیشن‘ (GFCF) ہوتی ہے۔ جدول سے مودی 1.0 حکومت کے تحت صورتحال واضح ہوتی ہے:
جی ایف سی ایف میں 32.9 کی اونچائی سے تقریباً 5 فیصدی پوائنٹس کی گراوٹ ہوئی ہے۔ یہ تین سال تک لگ بھگ 28 فی صد پر جمود کا شکار رہا اور معمولی بحالی کے ساتھ 2018-19ء میں 29.3 فیصد ہوا۔ جی ایف سی ایف میں اضافہ ہوگا بشرطیکہ سرکاری سرمایہ اور خانگی سرمایہ میں قابل لحاظ حد تک اضافہ ہو۔ سرکاری سرمایہ کاری حکومت کی ٹیکس آمدنی اکٹھا کرنے کی قابلیت پر منحصر ہوتی ہے لیکن یہ قابلیت ماند پڑچکی ہے۔ 2018-19ء میں حکومت خالص ٹیکس آمدنی کے نظرثانی شدہ تخمینوں میں سے 1,67,455 کروڑ روپئے سے ’محروم‘ ہوئی۔ 2019-20ء میں ٹیکس آمدنی کے معاملے میں تخمینی شروحات ترقی کو شائستگی سے بھی کہوں تو نہایت حیران کن آرزومندانہ ہیں۔ کیا کوئی یقین کرتا ہے کہ انکم ٹیکس ریونیو 23.25 فی صد بڑھ جائے گا یا یہ کہ جی ایس ٹی ریونیو میں 44.98 فی صد اضافہ ہوگا؟
بنیادی ڈھانچہ میں اصلاحات نہیں
بجٹ تقریر میں دو جگہوں پر فقرہ ’اسٹرکچرل ریفارمس‘ استعمال ہوا ہے لیکن کسی اقدام کا کوئی حوالہ نہیں جسے بنیادی ڈھانچہ میں اصلاح کے طور پر سمجھا جاسکے۔ اس سے میرے نقطہ نظر کی تصدیق ہوتی ہے کہ مسٹر نریندر مودی ، ڈاکٹر منموہن سنگھ کی طرز کے جرأت مند اصلاح پسند نہیں ہیں۔ وہ قدامت پسند، اپنے مفادات کے معاملے میں تحفظ پسند، آزادانہ تجارت پر یقین نہ رکھنے والے اور ’ٹیکس عائد کرو اور خرچ کرو‘ کی پالیسی کے پرستار ہیں۔ اُن کے موقف عجیب طور سے ماسوائے ٹیکس کاری صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے موقف سے مشابہ ہیں۔
حکومت ظاہر ہوتا ہے کہ تقریباً 7 فی صد کی اوسط شرح ترقی پر مطمئن ہے۔ سات فیصدی ترقی دولت جمع کرنے یا بہبود کو وسعت دینے کیلئے بالکلیہ ناکافی رہے گی۔ سات فیصدی شرح ترقی لاکھوں کروڑوں جابس پیدا نہیں کرپائے گی جو درکار ہیں۔ سات فیصدی شرح ترقی آبادی کے کمترین گوشوں (نچلا 20 فی صد حصہ) کی فی کس آمدنی میں نہیں بڑھائے گی۔ سات فیصدی شرح ترقی ہوسکتا ہے کہ انڈیا کو دنیا کی تیزترین بڑھتی بڑی معیشتوں میں ہونے کا سرٹفکیٹ دلائے لیکن اس کا نہایت غریب افراد، بے روزگاروں اور نظرانداز کردیئے گئے، مخدوش اور عوام کے استحصال شدہ گوشوں کیلئے شاید ہی کچھ مطلب ہوگا۔