مرکزی ٹیموں کے دورے

   

کس پر میں بھروسہ کروں یارب یہ بتادے
ہمدرد بظاہر تو ستمگر نہیں ہوتا
مرکزی ٹیموں کے دورے
مرکزی وزارت داخلہ نے ملک بھر میں کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے کئے گئے اقدامات اور ریاستوں میں لاک ڈاؤن پر عمل آوری کا جائزہ لینے کے لیے بین وزارتی سنٹرل ٹیمیں تشکیل دی تھیں ۔ ان ٹیموں کو سورت ، احمد آباد ، چینائی اور حیدرآباد میں برسر موقع جائزہ لینے کے لیے روانہ کیا گیا تھا ۔ حیدرآباد میں مرکزی ٹیم نے دورہ کیا اور مختلف کنٹنمنٹ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے بنیادی سہولتوں کا جائزہ لیا ۔ ریاستی حکومت کے اقدامات اور کورونا وائرس پر قابو پانے کی کوششوں کی ستائش کی ۔ گاندھی ہاسپٹل کے دورہ کے دوران ٹیم کے ارکان نے مریضوں کے علاج و معالجہ کا بھی معائنہ کیا ۔ صاف صفائی ، نیم طبی عملہ ، سیکوریٹی عملہ کے بارے میں دریافت کیا ۔ آئی سی یو یونٹوں وینٹی لیٹرس کی تفصیلات حاصل کی ۔ ٹیم نے شہر کے کنٹنمنٹ زونس میں مقامی افراد سے بھی بات چیت کی ۔ ٹیم کی ان تمام جانکاریوں کے بعد یہ نتیجہ سامنے آیا کہ تلنگانہ کی حکومت نے کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات کیے ہیں لیکن مرکزی ٹیم یا ریاستی حکومت نے اب تک زیادہ سے زیادہ کتنے افراد کا کورونا ٹسٹ کیا ہے ، اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ ریاست تلنگانہ یا ملک کی دیگر ریاستوں میں کورونا وائرس کے متاثرہ افراد فی الحال لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں بند ہیں ۔ گھروں میں بند لاکھوں افراد کے اندر کیا وائرس پایا جاتا ہے اس کا پتہ چلانے کے لیے مرکزی ، ریاستی حکومتوں نے کوئی ٹسٹنگ پروگرام وسیع پیمانہ پر شروع نہیں کیا ہے ۔ صرف ان مریضوں کا پتہ چل رہا ہے جو دواخانوں سے رجوع ہورہے ہیں ۔ اصل مسئلہ مرکزی حکومت کی تیاری کا ہے ۔ جیسا کہ چیف منسٹر مغربی بنگال ممتا بنرجی نے مرکز کی اس طرح کی ٹیموں کے دوروں کو وقت کی خرابی قرار دیا ہے اور سوال اٹھایا ہے کہ اس طرح ٹیم روانہ کرنے کے پیچھے اصل وجہ کیا ہے ۔ آیا ریاستی حکومت اور اس کے عہدیدار ٹیم کے سامنے پیش ہو کر صفائی بیان کریں یا عوام کی خدمت کریں ۔ یہ بھی سوال اٹھ رہا ہے کہ مرکزی حکومت نے اپنی ٹیموں کو روانہ کر کے وفاقی جذبہ کے مغائر یکطرفہ کارروائی کی ہے ۔ اس بحران کی گھڑی میں مرکزی حکومت کو بنیادی باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ کورونا وائرس کا پتہ چلانے کے لیے ریاستوں کو زیادہ سے زیادہ ٹسٹنگ کٹس کی سربراہی اصل مسئلہ ہے ۔ ریاستوں کو وائرس پر قابو پانے میں درپیش مسائل کو دور کرنے میں مدد کرنے کی کوشش پر توجہ دینے کے بجائے مرکزی حکومت نے اپنی بین وزارتی ٹیموں کو روانہ کر کے وباء پر قابو پانے میں کوئی مدد نہیں کی ہے ۔ مرکز نے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کو مذاق بنادیا ہے ۔ 20 اپریل کے بعد بعض علاقوں میں نرمی کا اعلان کیا گیا لیکن سوال یہ ہے کہ ٹیلر کی دکان کو کھولنے کی اجازت دی جاتی ہے تو کپڑے کی دکان بند رکھنے کی ہدایت ہے ۔ پلمبر اور الیکٹریشن کو کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن سنیٹری اور الکٹرک سامان کی دکانیں بند ہیں ۔ جن علاقوں میں بعض دکانیں کھولنے کی اجازت دی گئی ، وہاں لاک ڈاؤن کے اصولوں پر عمل کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ ریل اور بس بند ہیں تو دیگر جزوی کاروبار کی اجازت کا کیا مطلب ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی نے تو اپنی ذمہ داریوں میں خود کو صرف ریاستی چیف منسٹروں سے ویڈیو کانفرنس تک ہی محدود کرلیا ہے ۔ کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے اقدامات اور انتظامات کرنے کا سارا بوجھ ریاستی چیف منسٹروں پر ڈال دیا ہے ۔ ایسے میں مرکزی ٹیموں کی روانگی اور کاموں کا جائزہ لینے کے ذریعہ مرکز کیا ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ کیا اس طرح کی ٹیموں کے دورہ سے لاکھوں مزدوروں اور غریبوں کی مدد کی جارہی ہے ۔ اس لاک ڈاؤن میں غریب اور متوسط طبقہ کی عزت نفس کو مجروح کیا جارہا ہے ۔ آخر حکومت کے پاس غور و فکر کرنے اور امدادی اقدامات کرنے کا جذبہ کیوں نہیں ہے ۔ حکومت صرف لاک ڈاؤن کے ذریعہ اپنی خامیاں پوشیدہ رکھنے کی کوشش کررہی ہے تو یہ بہت خطرناک صورتحال ہے جس کے آنے والے دنوں میں بھیانک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں ۔ مرکزی ٹیموں کو ریاستوں کے معائنہ کے لیے روانہ کرنے والی مرکزی حکومت کو یہ بھی خیال ہونا چاہئے تھا کہ ان ٹیموں کی رپورٹ کی بنیاد پر ریاستوں کو ہنگامی مالیاتی پیاکیج بھی دیا جائے لیکن اس پیاکیج کا دور دور تک پتہ نہیں ہے ۔