مزاج مستقل دینا شعور معتبر دینا

   

محمد مصطفی علی سروری
احمد بھائی کے ریٹائرمنٹ کا وقت قریب آتا جارہا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ان کے ریٹائرمنٹ سے پہلے ان کا بڑا لڑکا کہیں نہ کہیں سیٹ ہوجائے۔ صرف انجینئرنگ ہی نہیں بلکہ ان کے لڑکے نے ایم ٹیک بھی کیا تھا۔ وہ امریکہ جانا چاہتا تھا اور اس کے لیے ایک ایجنٹ کے توسط سے کاروائی بھی چل رہی تھی، ساتھ ہی احمد بھائی کا لڑکا ایک انجینئرنگ کالج میں پڑھا بھی رہا تھا لیکن 15 ہزار کی نوکری پر اس لڑکے کی شادی طئے نہیں ہو رہی تھی۔ احمد بھائی نے اب اپنے بیٹے کا نیا Bio data شادی کے لیے بنایا تھا جس میں انہوں نے اپنے بیٹے کے بہت جلد امریکہ جانے کا ذکر کیا تھا۔ ایک دن احمد بھائی کا لڑکا روتے ہوئے گھر آیا اور بتلانے لگا کہ جس ایجنٹ نے دس لاکھ روپئے اڈوانس لے کر اس کو امریکہ کا ویزہ لگانے کا وعدہ کیا تھا وہ ممبئی میں پکڑا گیا۔ اس پر جعلی دستاویزات کے ذریعہ امریکی ویزا حاصل کرنے کی کوششوں کا الزام ہے۔ احمد بھائی نے اپنے بیٹے کو تو تسلی دی لیکن ان کے لڑکے کا وہ رشتہ بھی ٹوٹ گیا جو اس بات پر طئے ہوا تھا کہ لڑکا جلد ہی امریکہ جانے والا ہے۔ احمد بھائی کو تو اس بات پر صدمہ ہوا ہی لیکن احمد بھائی کے ایم ٹیک تعلیم یافتہ لڑکے نے انجینئرنگ کالج کی نوکری بھی چھوڑ دی اور حالات کا ایسا صدمہ لیا کہ احمد بھائی کے مطابق اب تو وہ بمشکل کھانا کھانے کے لیے کمرے سے باہر نکلتا ہے۔ گھر سے مسجد اور مسجد سے گھر بس۔ چہرے پر داڑھی چھوڑلی۔ نہ کسی سے بات چیت اور نہ میل ملاپ۔ احمد بھائی سرکاری نوکری سے ریٹائر تو ہوگئے مگر اپنے بیٹے کی حالت کو دیکھ کر دوبارہ خانگی کمپنی میں اکائونٹس کا کام دیکھنے لگے ہیں۔جب بھی موقع ملتا احمد بھائی اور ان کی بیوی اپنے بچے کو لے کر کسی نہ کسی ڈاکٹر کو بتاتے لیکن ان کا لڑکا دوائی کا کورس پورا نہیں کرتا اور کہتا کہ کیا فائدہ ہونے والا ۔ یہاں تک کہ احمد بھائی اپنے بیٹے کو لے کر بعض حضرات سے روحانی علاج کروانا چاہا لیکن ان کے بیٹے کا بس ایک ہی کہنا تھا کہ اللہ میاں کو منظور نہیں تو کیا کریں۔ جب میری قسمت میں امریکہ جانا نہیں ہے تو شائد میری زندگی بھی ختم ہی ہے۔ وہ تو میں آپ لوگوں کی خاطر کھانا کھالیتا ہوں اور زندہ ہوں۔
قارئین احمد بھائی کا صرف نام فرضی استعمال کیا گیا ہے ورنہ پوری کہانی تو ویسی ہی ہے ۔ جب زندگی میں مشکلات آتی ہیں تو بہت سارے لوگ ہمت ہار جاتے ہیں۔ مرحوم مجید خان صاحب اپنی زندگی بھر نفسیات کے متعلق لوگوں میں شعور بیداری کے لیے کام کرتے رہے۔ خدا ان کے درجات بلند کرے، آج بھی مسلم معاشرے میں خاص کر نوجوانوں کو اس بات کی تعلیم دی جانی چاہیے کہ روزگار صرف امریکہ میں ہی نہیں ملتا اور انجینئرنگ کرنے والے ہر فرد کی اکلوتی منزل بیرون ملک ملازمت نہیں ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ مشکلات اور پریشانیاں صرف مسلم نوجوانوں کو درپیش ہیں۔ قارئین یہ 1960ء کی بات ہے جب منگلور کے رامچندر بھنڈاری نے کے پی ٹی بنگلور سے آٹو موبائل میں انجینئرنگ کا کورس مکمل کیا۔ اس نوجوان کی ایک ہی خواہش تھی کہ وہ آٹو موبائل کی مشہور کمپنی Bosch میں کام کرے۔ جب اس کو بوچ کمپنی میں کام نہیں ملا تو اس نے بنگلور شہر میں رہتے ہوئے آٹو موبائل اسپیئر پارٹس کی صنعت میں کام کرنا شروع کیا۔ دو سال بعد رامچندر بھنڈاری کے والد کا انتقال ہوگیا۔ بھنڈاری ابھی اس صدمہ سے سنبھل بھی نہیں پایا تھا کہ اس کے بھائی کا بھی انتقال ہوگیا۔ Bosch کمپنی میں ملازمت کا خواب خواب ہی رہ گیا۔ بھنڈاری بنگلور سے واپس منگلور اپنے گھر آگیا تاکہ گھر والوں کے ساتھ رہ کر ان کی مدد کرسکے۔ منگلور 1960 کی دہائی میں بہت چھوٹا شہر تھا۔ بھنڈاری کو آٹو موبائل میں وہاں پر نوکری ملنا مشکل تھا لیکن اس کے لیے ضروری بھی تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ بھی رہے اور کماکر ان کی مدد بھی کرے۔ بھنڈاری نے پہلے تو چھوٹا موٹا کاروبار شروع کیا اور پھر 1966ء میں رامچندر بھنڈاری نے آملیٹ بناکر بیچنے کا کام شروع کیا۔ The News Minute ویب پورٹل سے بات کرتے ہوئے بھنڈاری نے بتلایا کہ ایک برہمن خاندان سے تعلق ہونے کے سبب وہ لوگ انڈہ بالکل بھی استعمال نہیں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اس کو آملیٹ بنانے کے لیے انڈا کیسے توڑا جاتا ہے وہ بھی نہیں معلوم تھا۔ پھر دوستوں سے معلوم کر کے بھنڈاری نے آملیٹ بنانا سیکھ لیا۔ بنگلور سے 300 کیلومیٹر دور منگلور کے قریب مناگوڑہ کے علاقے میں بھنڈاری نے جب آملیٹ بناکر فروخت کرنا شروع کیا تو پورے علاقے میں یہ اتنا مشہور ہوگیا کہ چھوٹے بچے بھی کھیل کود کے دوران بھنڈاری کے آملیٹ کھا نے کھلانے کی شرط لگانے لگے۔ صرف بچے ہی نہیں علاقے کے ڈاکٹرس، طلبہ، سیاست داں ہر کوئی مناگوڑہ آتا تو بھنڈاری کا آملیٹ ضرور کھاتا۔ سنگل آملیٹ (15) روپئے فی پلیٹ تو ڈبل آملیٹ 30 روپئے میں بکنے لگا تھا۔ یہاں تک کہ TNM پورٹل کے مطابق بھنڈاری کا نام ہی آملیٹ کے ساتھ جڑگیا اور ایک دن میں وہ 300 آملیٹ بھی بیچنے لگا تھا۔ 1982ء میں جب دو منٹ والی میاگی بازار میں آگئی تو بھنڈاری نے میاگی بھی بناکر بیچی۔

TNM سے بات کرتے ہوئے بھنڈاری نے بتلایا کہ آٹوموبائیل انجینئرنگ کے بعد وہ اچھی نوکری کی تلاش میں بنگلور میں ہی رہتا تو شائد اتنا کامیاب نہیں ہوتا جتنا وہ اپنے شہر منگلور میں آکر اپنا خود کا کاروبار کرتے ہوئے زندگی گزار رہا ہے۔
آج رامچندر بھنڈاری کی عمر 74 سال کی ہوگئی ہے۔ وہ جنوری 2019 میں اپنی آملیٹ کی دوکان سے ریٹائرمنٹ لینے جارہا ہے۔ اس نے TNM کے رپورٹر کو بتلایا کہ گذشتہ 51 برسوں کے دوران اس کی دوکان صرف ایک ہی مرتبہ بند ہوئی جب وہ اپنے مذہبی سفر پر ہری دوار گیا تھا۔ 74 سال کی عمر میں رامچندر بھنڈاری اپنی دوکان بند کر کے کیا کرنے والے ہیں، اس کے متعلق انہوں نے خود بتلایا کہ اب وہ اپنی بیوی کو لیکر ہندوستان بھر میں گھومنا چاہتے ہیں۔ (بحوالہ TNM کی رپورٹ 29؍ دسمبر 2018)
قارئین پریشانیاں رامچندر بھنڈاری پر بھی پڑی لیکن انہوں نے ان پریشانیوں سے باہر نکل کر جینے کا ہنر سیکھا اور آٹوموبائل انجینئرنگ کرنے کے باوجود آملیٹ بناکر بیچنے کا کاروبار کیا اور 50 سے زائد برسوں تک اس کاروبار کے ذریعہ عزت کی زندگی گزاری اور 74 سال کی عمر میں اپنی بیوی کے ساتھ ملک بھر میں گھومنے کا پروگرام بنایا ہے۔ رامچندر بھنڈاری نے ثابت کیا کہ کام کوئی چھوٹا نہیں ہوتا، ہاں سونچ چھوٹی ہوتی ہے۔

کیا پوری دنیا میں ایسی ایک ہی کہانی ہے۔ جی نہیں ہم اگر اپنے اطراف و اکناف دیکھیں تو ہمیں ایسے کئی چہرے مل جائیں گے۔ شکنتلا نام کی ایک خاتون کا کیرالہ سے تعلق ہے اور 1978 میں شکنتلا کو کیرالا کی ویمنس ہاکی ٹیم کا وائس کپتان بناگیا تھا۔ شکنتلا ہاکی کس قدر بہترین کھیلا کرتی تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے کھیل کے بہترین مظاہرے کو دیکھتے ہوئے ہی اسپورٹس کے زمرے میں اس کو کالج میں داخلہ دیا گیا تھا۔ شکنتلا کے ساتھ بھی وہی ہوا جو ہر لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے کہ اس کی شادی کروادی گئی۔ شکنتلا کا شوہر بی ایس ایف میں کام کرتا تھا۔ شادی کے بعد شکنتلا کو دوبچے بھی ہوئے، پھر اچانک شکنتلا کا شوہر ایسا بیمار پڑگیا کہ دوبچوں اور شو ہر کی ذمہ داری اس کے کاندھوں پر آنپڑی۔ شکنتلا کو امید تھی کہ اس کے اسپورٹس سرٹیفکیٹ کی بنیادوں پر اس کو کوئی سرکاری نوکری مل جائے گی۔ قارئین اس خاتون نے سرکاری نوکری کی امید میں دو ایک نہیں بلکہ پورے 30 برس گزار دیئے جی ہاں اس دوران وہ ترکاری بیچتی رہی۔ لیمو بیچی، انڈے بھی بیچے لیکن کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے اور اپنی مدد آپ کرتی رہی۔ شکنتلا شادی سے پہلے جب ہاکی کھیلا کرتی تھی تو اس کا شمار بہترین کھلاڑیوں میں ہوتا تھا اور جب 1976 کے آس پاس کیرالا کی ہاکی ویمنس ٹیم نے پنجاب کی ویمنس ہاکی ٹیم کو ہراکر تاریخ رقم کی تھی تو شکنتلا اس ٹیم کا حصہ تھی۔ شادی کے بعد شکنتلا نہ تو تعلیم جاری رکھ سکی اور نہ ہاکی کھیلنا۔ بس اپنا کار وبار خود کر رہی تھی اور 30 برسوں کے تھکادینے والے انتظار کے بعد شکنتلا کو سرکاری نوکری ملی۔ قارئین آپ حضرات کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ شکنتلا کو کونسی سرکاری نوکری ملی۔ شکنتلا کو حکومت کیرالہ نے ایک Sweeper کی نوکری دی۔ جی ہاں شکنتلا پچھلے تین برسوں سے ایک سرکاری ادارے میں جھاڑو لگانے کا کام کر رہی تھی۔ اب حکومت نے اس کی کنٹراکٹ کی نوکری کو مستقل کردیا۔ شکنتلا اپنی اس سرکاری نوکری سے بڑی خوش ہے۔ اس نے میڈیا کو بتلایا کہ مجھے ہاکی کھیلنے کے سرٹیفکیٹ رکھتے ہوئے سرکاری نوکری نہیں مل رہی تھی تو میں پریشان تھی۔ اب میں بڑی خوش ہوں کہ مجھے مستقل ملازمت مل گئی ہے۔ شکنتلا نے اپنی محنت، مزدوری کے ذریعہ اپنے دونوں بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ اس کے دونوں لڑکوں نے پوسٹ گریجویشن کی تعلیم مکمل کرلی ہے اور نوکری تلاش کر رہے ہیں۔ (بحوالہ TNM کی رپورٹ 28؍ دسمبر 2018)
قارئین شکنتلا کی زندگی میں کیسے اتار چڑھائو آئے۔ والد کا انتقال ہوگیا۔ تعلیم ترک کر کے شادی کروادی گئی۔ شوہر بیمار پڑگیا۔ بچوں اور گھر کی ذمہ داری کاندھوں پر آگئی۔ لوگوں کے گھر خادمائوں کا کام کیا۔ ترکاری بیچی، انڈے بیچے لیکن ہمت نہیں ہاری اور بالآخر ایک جاروب کش کی سرکاری نوکری حاصل کر کے ہی دم لیا۔
پریشانیاں ہر ایک کو آتی ہیں۔ لیکن کامیاب وہی ہوتے ہیں جو ان پریشانیوں کا سامنا کرتے ہیں ۔ انسان سونچنے کو تو بہت سونچتا ہے لیکن ہر انسان کی زندگی میں اس کا ہر خواب پورا نہیں ہوتا۔ کیا ہم اپنے خوابوں کو بدلنے تیار ہیں اور زندگی کی حقیقتوں کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں پریشانیوں سے راحت دے اور ناگہانی حالات سے محفوظ رکھے اور ہمیں اپنی زندگی اس کے بتلائے ہوئے راستے پر چلنے والا بنائے۔ آمین یارب العالمینبقول گوہر عثمانی ؎
مزاجِ مستقل دینا شعورِ معتبر دینا
جھکاپائے نہ جس کو وقت کا طوفاں وہ سر دینا
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگزار ہیں)
sarwari829@yahoo.com