مسائل سے دوچار نوجوانوں کیلئے سنہرا موقع

   

رویش کمار
عام انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے۔ ان اقدامات کے تعلق سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں جو ای سی (الیکشن کمیشن) نے کئے ہیں۔ 2014ء میں بہار میں انتخابات چھ مرحلوں میں منعقد کئے گئے تھے۔ 2019ء میں وہاں 7 مرحلے ہوں گے۔ ایک پُرامن ریاست میں سات مراحل میں انتخابات کے انعقاد کا کیا مطلب ہے۔ 2014ء میں جھانشرپور، مدھوبنی، دربھنگہ کو چوتھے مرحلے میں مدھے پورہ، سمستی پور، بیگوسرائے اور کھگریا کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ جھانشرپور، مدھوبنی اور دربھنگہ ایک دوسرے کے ساتھ متصل ہیں۔ اس مرتبہ تین پڑوسی اضلاع کو مختلف مرحلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔ جھانشرپور میں پولنگ 23 اپریل کے تیسرے مرحلہ میں منعقد کی جائے گی۔ دربھنگہ میں 29 اپریل اور مدھوبنی میں 6 مئی کے پانچویں مرحلہ میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن ہی بتاسکتا ہے کہ کیوں یہ تمام تینوں پڑوسی اضلاع کو مختلف مرحلوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ یہ کام کسی کی سہولت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا گیا یا پھر کمیشن نے اپنی آسانی دیکھی ہے۔
اسی طرح مہاراشٹرا میں چار مرحلوں میں عام چناؤ کے تعلق سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ یوگیندر یادو نے سوال اٹھایا کہ 2014ء میں اوڈیشہ میں دو مرحلوں میں انتخابات ہوئے تو پھر اس مرتبہ چار مراحل کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ہے۔ مغربی بنگال میں تو پہلی بار سات مرحلوں میں چناؤ مقرر کئے گئے ہیں۔ صرف مراحل کا معاملہ نہیں، انتخابات کے اعلان میں بھی 5 یوم کی تاخیر کی گئی۔ سابقہ موقع پر جنرل الیکشن کا اعلان 5 مارچ 2014ء کو ہوا تھا۔ اس طرح کی تواریخ کے ذریعہ الیکشن مینجمنٹ کو سمجھنے کیلئے بعض سوالات اٹھانا اہم ہے۔ یہ وہی ای سی ہے جس نے سابق میں ایک اسمبلی الیکشن کے اعلان کی پریس کانفرنس کو موخر کردیا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اسی وقت کے درمیان وزیراعظم نے ریلی منعقد کی۔ اِس مرتبہ ایسا نہیں کہ کمیشن محض 100 عام جلسوں کی تکمیل اور (وزیراعظم کی) دہلی کو واپسی کا انتظار کررہا تھا!
بہرحال حقیقت جو بھی ہو اَب آپ کو عوام کی حیثیت سے اپنا وجود ثابت کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ عوامی مفاد کو ملحوظ رکھیں۔ نت نئے چیانلس شروع ہوگئے ہیں جو سروے کے نام پر اپنا ایجنڈہ چلاتے ہیں۔ نوکری کا مسئلہ اس قدر سنگین ہوچلا ہے۔ لیکن ان چیانلس کے پاس جاب کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ ایسے چیانلوں سے رابطہ قائم کریں اور انھیں بتائیں کہ جاب کے سنگین بحران کو اجاگر کریں، اور ان سے سوالات کی عادت ڈالیں۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں نوجوانوں کو نوکری کا مسئلہ درپیش نہیں ہوگا۔ بس معقول عددی طاقت والی دیانتدار حکومت بننا چاہئے۔ ایسے چیانلوں کو دکھانا چاہئے کہ کتنے فیصدی نوجوان بیروزگار ہیں اور کتنی تعداد میں نوکریاں درکار ہیں؟
بہار میں ایس ایس سی اسٹینوگرافر 2017ء کا امتحان منعقد کیا گیا۔ 28 نومبر 2018ء کو معلوم ہوا کہ 2,400 اسٹوڈنٹس کامیاب ہوئے۔ اس کے بعد قطعی میرٹ لسٹ کا اعلان 28 ڈسمبر کو کرنا تھا، لیکن معلوم ہوا کہ فہرست کی ٹھیک طرح جانچ نہیں ہوئی۔ اب 3 ماہ مکمل ہونے والے ہیں لیکن قطعی نتیجہ ہنوز نہیں آیا ہے۔ مگدھا یونیورسٹی کے ہزاروں طلبہ کے دل غیریقینی کیفیت سے دھڑک رہے ہیں۔ اگر یہ نتائج 31 مارچ تک نہ آئیں تو وہ نئے ریلوے جابس کیلئے فام پُر نہیں کرپائیں گے۔
گزشتہ سال ریاستی حکومت کے محکمہ پنچایت نے 945 خالیہ جائیدادیں بتائیں۔ اس کیلئے اہلیتی امتحان 20 مئی 2018ء کو منعقد کیا گیا۔ بعدازاں یہ امتحان کئی قسم کی تحقیقات اور مقدمات میں پھنس گیا۔ سی آئی ڈی نے تحقیقات کیں اور بے قاعدگیاں پائی گئیں۔ اس کے بعد حکومت نے 5 مارچ 2019ء کے نتیجے سے دستبرداری اختیار کرلی۔ اسٹوڈنٹس نے سینکڑوں ای میل بھیجے اور الزام عائد کیا کہ رشوت پر نشستیں بیچی جارہی ہیں۔ سیاسی وابستگی رکھنے والوں کو نوکریاں مل چکی ہیں۔ یکایک ابھرنے والے چیانلوں سے ان امتحانات کے تعلق سے پوچھئے اور کہئے کہ ان پر سوال اٹھائیں۔ اس طرح کے معاملے کانگریس حکومتوں اور بی جے پی حکومتوں دونوں میں ہیں۔ روزگار کے مسئلہ کو سروے کے دائرۂ کار سے ہی حذف کردیا گیا ہے۔
اب نوجوانوں کو دیکھنا ہے کہ ایسے چیانلوں پر مباحث سے انھیں کیا حاصل ہوتا ہے۔ انھیں اس مشکل سوال سے گزرنا ہی پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ الیکشن نوجوانوں سے تعلق رکھتا ہے۔ انھیں میڈیا کی من گھڑت جھوٹ باتیں شکست دیتی ہیں یا سیاسی لیڈر یا پھر دونوں کو وہ شکست دینے میں کامیاب ہوتے ہیں، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ اگر جاب مسئلہ ہے تو پھر یہ الیکشن نوجوانوں کیلئے آزمائش سے کم نہیں۔ ہندوستان کی سیاست میں اگر نوجوان افراد کی نمایاں قدر ہے تو پھر جاب کا مسئلہ اُبھرے گا۔ ورنہ اس سوال کو دبا دیا جائے گا۔ مجھے آج کل کے نوجوانوں سے توقع ہے کہ وہ میڈیا کے پروپگنڈہ سے متاثر نہ ہوں اور اپنے مسئلہ کو حل کروائیں۔ 2019ء کا الیکشن راہول بمقابلہ مودی نہیں ہے۔ یہ الیکشن عوامی مسائل پر لڑا جائے گا۔ چبھتے سوالات کو پس پشت ڈالنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ کیا عوام پروپگنڈہ کو شکست دے کر اپنے مسائل کو اُبھار پائیں گے یا ان کے جھانسے میں آجائیں گے، یہی اس الیکشن کا نتیجہ ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ ہندوستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے مہنگا الیکشن رہے گا۔ پیسہ پانی کی طرح بہتا رہے گا اور جھوٹ کو کئی گوشے شاید امرت سمجھنے لگیں گے۔
ravish@ndtv.com