مسعود اظہر کی ’رہائی ‘ سے ہندوستان کو بار بار جھٹکے

   

پی چدمبرم

مسعود اظہر کی جنوری 2000ء میں رہائی کے مابعد جھٹکے وقفے وقفے سے محسوس ہوتے ہیں۔ اس طرح کا ہر جھٹکہ ہندوستان کے عوام کو اُس گہرے صدمہ کی یاددہائی کرانا چاہئے جو اِس ملک کو تب محسوس ہوا جب بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے فلائیٹ IC-184 کے یرغمال بنائے گئے مسافرین اور عملہ کے بدلے مسعود اظہر کو رہا کردینے کا فیصلہ کیا تھا۔ وزیر امور خارجہ جسونت سنگھ کی مسعود اظہر اور دو دیگر کو کابل تک بحفاظت لے جانے اور انھیں اُن کے ساتھی دہشت گردوں کے پاس رہا کردینے کی تصویر تکلیف دہ یادداشت ہے۔ اس کے بعد ہی مسعود اظہر نے جیش محمد گروہ تشکیل دیا۔ جیش تنظیم نے اپنا پہلا حملہ خودکش بمبار کو استعمال کرتے ہوئے 19 اپریل 2000ء کو سرینگر میں آرمی کے 15 کارز پر کیا تھا۔ تب سے وقفے وقفے سے جیش محمد نے جموں اینڈ کشمیر لیجسلیچر کامپلکس اور پارلیمنٹ کے علاوہ اضلاع سرینگر، کپواڑہ اور بارہمولا میں کئی نشانوں پر دہشت گردانہ حملے کئے ہیں۔

ماخذ : راجیہ سبھا میں سوالات اور جوابات، 27-03-2017 اور 12-12-2018
دراندازی اور بھرتی
جیش محمد کے کارندے دو سطحوں پر کام کرتے ہیں: ایک، ہندوستانی علاقے میں دہشت گردوں کو گھساکر مخصوص ٹارگٹس پر حملہ کرنا۔ اس کی مثالیں پٹھان کوٹ، اُری اور نگروٹا ہیں۔ دیگر طریقہ مقامی نوجوانوں کی بھرتی کرتے ہوئے انھیں خودکش بمباروں کے طور پر استعمال کرنا۔ اس کی مثال عادل احمد دھار ہے جس نے 14 فبروری 2019ء کو اپنی گاڑی (SUV) سی آر پی ایف کے قافلے میں گھسادی، جس سے ایک گاڑی دھماکے سے اُڑ گئی اور 40 جوان ہلاک ہوگئے۔ ناخوشگوار حقائق یہ ہیں کہ دراندازوں کی تعداد اور مقامی بھرتیوں کی تعداد 2015 ء سے بڑھتی ہی گئی ہے (جدول ملاحظہ کیجئے)۔
جموں و کشمیر کے بارے میں میری رائے معروف ہے۔ پاکستان کے ’نظام‘ …کمزور سیویلین گورنمنٹ، آرمی جس نے اپنے سبق نہیں سیکھے ہیں اور غیرمملکتی عوامل… نے جموں و کشمیر کا استحصال کیاہے اور پاکستان کی معاشی قبر کھود لی۔ اس کے ساتھ ساتھ میں بی جے پی زیرقیادت حکومت کے دھونس جمانے والے، فوجی نوعیت کے اور انتہاپسندانہ موقف کا سخت مخالف ہوں؛ اس نے بھی جموں و کشمیر کے عوام کا استحصال کیا ہے۔
قوم کو ناکام کرنا
این ڈی اے حکومت نے ہندوستان کو کئی طرح سے ناکام کیا ہے لیکن قومی سلامتی کیلئے کوئی ناکامی اس سے زیادہ سنگین نتائج کی حامل نہیں جس طرح اس کی جموں و کشمیر کے بارے میں مصیبت خیز پالیسی ہے۔ میں نے 13 مئی 2018 ء کو اسی طرح کے کالم میں لکھا تھا، ’’وہ تمام چیزیں جن کیلئے ہندوستان بحیثیت قوم کھڑا ہے جیسے اتحاد، سالمیت، تکثیریت، مذہبی رواداری، عوام کو جوابدہ حکومت، اختلافات کی یکسوئی کیلئے بات چیت وغیرہ؛ یہ سب کی جموں و کشمیر میں آزمائش ہورہی ہے۔ ہندوستان بطور قوم اس آزمائش میں ناکام ہورہا ہے۔‘‘
پلوامہ (واقعہ) کے بعد حکومت اور حد سے زیادہ قوم پرستی کا مظاہرہ کرنے والے عناصر کسی دیو کو کھڑا کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ اسے انتخابات سے قبل قتل کیا جاسکے۔ ابھی انھوں نے ایسا کیا ہی تھا کہ وادیٔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے تاجرین اور طلبہ پر جموں اور ہندوستان کے دیگر شہروں میں حملے کئے گئے۔ کشمیری اسٹوڈنٹس اپنے ہاسٹلوں اور لاڈجس سے نکال باہر کئے گئے۔ سوشل میڈیا پر غیردانشمندانہ پوسٹ کو غداری کی حرکت کے طور پر باور کیا گیا۔ تیزی سے مطالبات ہونے لگے کہ برآمدات برائے پاکستان پر امتناع عائد کردیں اور اُس ملک کے ساتھ کھیل کود کی مصروفیات پر پابندی لگائیں۔ گورنر میگھالیہ جنھوں نے دستور کی پاسداری کا حلف لیا ہے، کہنے لگے ’’کشمیر کو مت جاؤ، امرناتھ کو مت جاؤ، ہر موسم سرما آنے والے کشمیری تاجرین سے اشیاء مت خریدو‘‘۔ یہ جنگ کے نقاروں کی واضح آوازیں ہیں۔
ہمیں 40 زندگیوں کے نقصان کا سوگ ہے اور ہم متاثرہ خاندانوں کے دکھ اور تکلیف میں شریک ہیں۔ لیکن، جوش اور غصہ میں ہم مدلل سوال پوچھنے میں ناکام رہتے ہیں: قومی سلامتی کیلئے کون ذمہ دار ہے؟ کیا انٹلیجنس کی ناکامی ہوئی ہے؟ کیا زائد از 2000 سپاہیوں کو واحد قافلے میں منتقل کرنے کا فیصلہ سنگین غلطی ہوئی؟ کیوں 22 سالہ عادل احمد نے دھماکہ کرتے ہوئے 40 جوانوں کو ہلاک کیا اور خود بھی ہلاک ہوگیا؟ جب تک ہم یہ سوالات نہ پوچھیں اور جوابات معلوم نہ کریں، تاریخ کا اعادہ تھمنے والا نہیں ہے۔
دانائی کی باتیں
< ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل حسنین نے تحریر کیا: ’’ہندوستان اپنے کلیدی مقاصد اُس وقت تک حاصل نہیں کرسکتا جب تک کشمیری لوگ یونہی جسمانی ایذا رسانی اور ہراسانی کا نشانہ بنائے جاتے رہیں اور اقلیتوں کو سوشل میڈیا پر ذلیل کیا جاتا رہے۔‘‘
< ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل ہوڈا نے ایک انٹرویو میں کہا: ’’ہمیں کشمیر کے مسائل پر اپنی آنکھیں ہرگز بند نہیں کرنا چاہئے، آخر تو وہ مقامی نوجوان ہی تھا جس نے اتنی دہشت مچائی … لہٰذا، وہاں داخلی مسئلہ ہے۔‘‘
< سبکدوش معتمد خارجہ شیام سرن نے لکھا: ’’کشمیر کو بقیہ ہندوستان سے الگ تھلگ نہیں کیا جاسکتا اور اس کی عام دھارے سے علیحدہ آبادی کو اب تک کے سخت ترین سکیورٹی اقدامات کے نفاذ کے ذریعے مضطرب کردیا گیا ہے … ہمیں ایسی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو مسئلہ کشمیر کے دیسی اور بیرونی دونوں پہلوؤں کو ملحوظ رکھے۔‘‘
< ریٹائرڈ آئی پی ایس آفیسر جولیو رِبیرو نے تحریر کیا: ’’…وہ کمیونٹی جس سے دہشت گرد کا تعلق ہے ، اس کا بھروسہ نہیں جیتا گیا تو آخرالذکر کو یونہی شریک مذہب پرستوں سے ’آکسیجن‘ ملتی رہے گی اور ایک دہشت گرد ختم ہوجائے تو جلد ہی اس کی جگہ کوئی ایک یا دو یا پھر تین جذباتی طور پر مشتعل کئے گئے افراد آجائیں گے۔‘‘
< مختلف گوشوں سے اس طرح کی آوازیں آرہی تھیں کہ آرمی نے قدیم زبان میں بات کی: لیفٹننٹ جنرل کنول جیت سنگھ ڈھلن ، کارز کمانڈر، چینار کارز نے 19 فبروری 2019 ء کو انتباہ دیا کہ ’’کشمیر میں جس کسی نے بھی بندوق اٹھائی اس کا صفایا کردیا جائے گا، سوائے اس کے کہ وہ ہتھیار ڈال دے۔‘‘
بڑھتی برہمی اور مایوسی کے درمیان ہمیں مہلوکین کا بہت دکھ ہے لیکن ہم امید کا دامن نہیں چھوڑ سکتے۔ موجودہ حکومت اب بدترین کام یہی کرسکتی ہے کہ ملک کو تباہی کی راہ پر مزید آگے تک گھسیٹے، جس کے نتیجے میں عوام کے مابین مزید باہمی بے اعتمادی پیدا ہوگی، جموں و کشمیر میں مزید علیحدگی کا احساس اُبھرے گا، جانوں کا مزید نقصان ہوگا اور کوئی حل سے فاصلہ زیادہ بڑھ جائے گا۔ تاہم، مجھے اعتماد ہے کہ دانائی کی آوازیں غالب آئیں گی اور مستقبل کی حکومت بہتر فہم و ادراک، زیادہ دانا قیادت اور کسی سیاسی حل کیلئے سنجیدہ سعی کا مظاہرہ کرے گی۔