مسلمانوں خواتین کا ’ہراج‘ اسلام فوبیا اورجنس پرستی کا نتیجہ ’سولی ڈیل‘ معاملہ

,

   

مذکورہ ’سلی‘ کی اصطلاح مسلم خواتین کے خلاف استعمال ہونے والی ایک اشتعال انگیز گندگی ہے جو فرقہ وارانہ نویعت کے معاملے میں بار بارگشت کرتی ہوئی نظر ائی ہے


حیدرآباد۔ ایک 25سالہ شاعر او رجہدکار نابیا خان نے کہاکہ ”میرے پہلے جذبات ایک طاقت سے محرومی تھا۔ میں حیران ہوں کہ یہ مرد مجھے کیوں دیکھ رہے ہیں‘ ایک شئے کی طرح دیکھا رہے ہیں کا ہراج ہوگیاہے“۔

گیٹ ہب پیلٹ فارم پر ”سلی ڈیلس‘‘ نامی ایک ایپ میں اپنی تصویروں کی موجودگی پر خان اور ایسی بہ شمار مسلم خواتین ہیں۔

اگر کوئی اس ایپ کو کھولتا ہے تو ان عورتوں کی ایک فوٹو خود بخود سامنے آجاتی ہے اور ’سلی ڈیل آف دی ڈی“ کی پیشکش کی جاتی ہے‘ جس کا مطلب ہوتا ہے کہ مردوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے یہ عورتیں دستیاب ہیں۔مذکورہ ’سلی‘ کی اصطلاح مسلم خواتین کے خلاف استعمال ہونے والی ایک اشتعال انگیز گندگی ہے جو فرقہ وارانہ نویعت کے معاملے میں بار بارگشت کرتی ہوئی نظر ائی ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ سے گریجویٹ 22 سالہ عابدہ(تبدیل شدہ نام) نے کہاکہ وہ اس واقعہ سے دلبرداشتہ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ”خود ہی کو ’سلی ڈیل آ ف دی ڈے‘شرمندگی اور صدمہ تھا۔ میں نہیں جانتی کہ دوبارہ ٹوئٹر پر اپنی ایک تصویر رکھنے پر مجھے وقار کو صدمہ لگانے کا احساس ستائے گا“۔

جب پوچھا گیاکہ پولیس کے ساتھ ایک ایف ائی آردرج کرنا چاہتی ہیں تو عابدہ نے کہاکہ انہیں یقین نہیں ہے کیونکہ ”نظام ایسے مردوں کی حمایت کرتا ہے“۔

ایسا کرنے والوں کے متعلق پوچھنے پر عابدہ نے کہاکہ ایک مرتبہ انہیں ٹوئٹر کے ایک چیاٹ گروپ جس کا نام ”عابدہ سلی سیل“ تھا میں شامل کیاگیاتھا جہاں پر ان کی نیلامی کی جارہی تھی۔دیگر خواتین نے بھی ٹوئٹر کے بعض ہینڈلس کا ذکر کیاہے جہاں سے انہیں ٹرولنگ /دھمکیاں موصول ہوئی ہیں مگر وہ اس پر باضابطہ طور سے کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتی ہیں۔

مگر یہ تمام اس بات پر اتفاق کرتی ہیں کہ یہ نفرت کہاں سے آرہی ہے۔ عابدہ کی فوٹواس لئے پیش کی گئی ہے کیونکہ وہ نفرت پر مشتمل جرائم جس کا مسلمانوں پر اثر پڑرہا ہے اس کے متعلق مسلسل ٹوئٹ کرتی رہتی ہیں۔

نابیا خان کی کہانی بھی اس سے کوئی الگ نہیں ہے۔خان کے اپنے تبصرے کے مطابق ”عام طور پر مرد وں کو طاقتور عورتوں سے خطرہ ہے۔

ایک پرعزم مسلم عورت تاہم دائیں بازو کے ہندو مردوں کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور جہاں وہ اس ”خطرے“ کا سامنا کرتے ہیں وہ کسی بھی قسم کے جنسی تشدد پر اتر جاتے ہیں چاہئے وہ زبانی جنسی تشدد ہی کیوں نہ ہو“۔

نابیا کی بات پر زوردیتے ہوئے حناخان کو پیشہ سے ایک کمرشیل پائلٹ ہیں اپنے ساتھ ہوئی واقعات بیان کئے۔ انہوں نے کہاکہ ”اس کی دلچسپ بات یہ ہے کہ میں شاذ ونادر ہی سوشیل میڈیا پر سیاست کے متعلق پوسٹ کرتی ہوں۔

واحد چیز میرے احساس میں یہ ہے کہ حملہ آوروں کے لئے تشویش کی بات میں ایک کامیاب مسلم عورت ہوں“۔

حناخان نے پولیس میں ایک شکایت درج کرائی ہے اور کاروائی کے لئے وہ تیار ہے۔ حنا خان کی بات چیت نوائیڈ ا‘ دہلی کی پولیس سے ہورہی ہے جو حملہ آوروں کو پکڑنے پر کام کررہے ہیں۔