مسلمانوں سے صرف وعدے

   

اردو کا میٹھی چھری سے قتل
اجمیر میں رباط قائم نہیں ہوا
مساجد شہید کردی گئیں


محمد نعیم وجاہت

ملک میں غذا۔ لباس۔ تہواروں سے شہریوں کی نشاندہی کا سلسلہ اب ناموں اور مجسموں تک پہنچ چکا ہے۔ مرد آہن سردار ولبھ بھائی پٹیل کے مجسمہ سے شروع۔ پی وی نرسمہا راؤ کے مجسمہ تک اس داستان کے لئے اخبارات کے صفحات اور قلم کی سیاہی دونوں بھی کم پڑ جائیں گے۔ لیکن 7 سال کے دوران ہندوستان جس نفرت کا شکار ہوا ہے گزشتہ 70 برسوں میں لاکھ کوششوں کے باوجود ایسا ممکن نہ ہو پایا تھا۔ اقلیتوں کے تئیں نفرت کی سیاست اب کسی ایک ریاست کا مسئلہ نہیں رہی بلکہ سارا ملک اس کی لپیٹ میں آگیا ہے۔ ہندوتوا کا خواب دیکھنے والے ہو یا ہندوستان کو ہندو راشٹرا بنانے کی کوشش کرنے والے ایک طبقہ کی من پسند غذا مسلمانوں سے نفرت ہوکر رہ گئی ہے۔ ملک میں نریندر مودی حکومت کی تشکیل کا سفر گجرات 2002 سے ہوچکا تھا لیکن باریکی سے اس کا جائزہ لیا جائے تو بی جے پی نے ڈسمبر 1992 میں ہی اپنے اقتدار کی داغ بیل ڈالنے میں کامیابی حاصل کرچکی تھی۔ گجرات 2002 کے مسلم کش فسادات نے ہندوستان کی سرزمین کو ایک ایسا سیاسی ہیرو دیا تھا جو اپنے نظریات پر ڈٹا رہنے کے علاوہ مقصد کے حصول میں کوئی مفاہمت نہیں کی۔ مودی کی شخصیت مسلمانوں میں ایک ویلن کی طرح ہے، لیکن ہندوتوا نظریہ کے لئے وہ ایک ہیرو ثابت ہو رہے ہیں ،دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی ملک کی تازہ حالت کو دیکھتے ہوئے سخت نہیں تو کم از کم نرم ہندوتوا نظریات کو اختیار کررہے ہیں۔ اس کی سب سے بدترین مثال ریاست تلنگانہ ہے۔ جس کا قیام ہی سماجی مساوات کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا تھا لیکن سماجی عدم مساوات کی یہاں مثال دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اترپردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے اپنے ہندوتوا نظریہ کی بنیاد پر کامیابی حاصل کی۔ اگر وہ مسلم دشمنی سے کام لیتی ہے تو کوئی عجیب نہیں ہے، لیکن ہندوستان میں نمبرون سیکولر ہونے کا دعویٰ کرنے والے چندر شیکھر راؤ کے اقتدار والی ریاست میں حکومت کی نگرانی میں مساجد کو شہید کیا جاتا ہے، مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے، پولیس حراست کے دوران مسلم نوجوانوں کا قتل کیا جاتا ہے، مسلمان جن قائدین سے نفرت کرتے ہیں ان کے نام سے جامعات اور سڑکوں کو موسوم کیا جارہا ہے، ایسی صورت میں مسلمانوں کے پاس سیکولرازم کی موت کا ماتم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر جو لوگ آواز اٹھاتے اور یہ کہتے کہ ان کے کندھے اب سیکولرازم کا جنازہ اٹھانے کے موقف نہیں ہے۔ انہیں اپنی ریاست میں سیکولرازم کی اکھڑتی ہوئی سانس نظر نہیں آرہی ہے۔ اترپردیش میں مساجد کی شہادت یقینا افسوسناک ہے۔ لیکن تلنگانہ میں بھی مساجد کو شہید کیا جاتا ہے تو اتنی ہی شدت سے غم و غصہ کا اظہار کیا جانا چاہئے۔ مغربی بنگال اور بہار میں مسلمانوں کی پسماندگی بے شک قابل رحم ہے، لیکن تلنگانہ کے مسلمانوں کی حالت کوئی ان سے بہتر نہیں ہے۔ متحدہ آندھرا پردیش میں جہاں مسلمانوں کا تناسب 9 فیصد تھا لیکن سیکولر ازم کی طاقت تھی کہ چار فیصد مسلم حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی اور جب تلنگانہ میں مسلمانوں کا تناسب 12 فیصد سے زیادہ ہے، مگر انہیں کھلونے دے کر بہلایا جارہا ہے، یا صرف کانوں کو خوش کیا جارہا ہے۔ چندر شیکھر راؤ اور نریندر مودی دونوں میں جو مماثلت ہے وہ یہ ہیکہ دونوں نے کسی زندہ قائد کو اپنا سیاسی سرپرست تسلیم نہیں کیا بلکہ جو لوگ اس دنیا میں نہیں ہے ان کے مجسموں کے نام پر سیاست کرتے ہوئے نہ صرف نفرت پھیلا رہے ہیں بلکہ ان کے نظریات کو فروغ دے رہے ہیں۔ علیحدہ تلنگانہ ریاست کے 7 سال مکمل ہیں مگر مسلمان 12 فیصد مسلم تحفظات سے محروم ہیں۔ ان 7 سال کے دوران کبھی اقلیتی بجٹ مکمل خرچ نہیں ہوا۔ عالمی سطح کا اسلامک سنٹر قائم نہیں ہوا۔ اجمیر میں ریاست کے زائرین کے لئے رباط قائم نہیں ہوااور نہ ہی پرانے شہر میں میٹرو ریل داخل ہوئی۔ سکریٹریٹ کے انہدام کے بعد عثمانیہ ہاسپٹل کی تاریخی عمارت نشانہ پر ہے۔ ریاست میں اپوزیشن کے وجود کو ختم کرکے رکھ دیا گیا۔ دوسری سرکاری زبان کے نام پر اردو کا میٹھی چھری کے ذریعہ قتل کردیا گیا۔ مسلم مسائل پر برائے نام اجلاس بھی طلب نہیں کیا گیا اور نہ ہی سدھیر کمیشن کی سفارشات پر کوئی عمل آوری کی گئی جبکہ تلنگانہ تحریک میں مسلمانوں کو ہتھیلی پر جنت دکھائی گئی تھی۔ سیکولر ازم کے نام پر مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ اس کا مسلمانوں کو محاسبہ کرنا چاہئے اور نئے طریقہ سے مستقبل کی حکمت عملی تیار کرنے کا وقت آگیا ہے۔