مسلمانوں کا علمی اور سائنسی زوال

   

تعلیمی انحطاط، فکری پستی، عزم و ہمت کی کمی، جہدمسلسل کے فقدان نے ملت اسلامیہ کو قعر مذلت میں جھونک دیا ہے۔ مسلمان اپنی عددی طاقت و قوت کے باوجود ذلت و رسوائی اور شکست و ناکامی کا شکار ہیں۔ نہ ان میں تفکر و تدبر باقی رہا اور نہ ہی عزم و رزم کے جذبات، بلکہ وہ اپنی بھوک و پیاس کو مٹاکر، اپنی ضروریات کی تکمیل پر خوش و خرم ہیں۔ وہ یہ محسوس نہیں کر رہے ہیں کہ حیوانات بھی یہی کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں ’’خیرامت‘‘ کے شرف سے ممتاز فرمایا ہے، تمام امتوں میں سب سے زیادہ بھلائیاں، خوبیاں، کمالات اور محاسن اس امت میں رکھے گئے ہیں۔ تمام امتوں کے مقابل میں یہی امت ساری انسانیت کی خوشحالی، فلاح و بہبود اور نفع رسانی کے اعلیٰ اوصاف کی حامل ہے۔ یہ امت جہاں اپنے خالق و پالنہار کی بندگی و عبادت کا حق ادا کرتی ہے، وہیں اپنی ہم جنس مخلوق کی خدمت کا عظیم فریضہ بھی انجام دیتی ہے۔ دل سے مالک و مولیٰ کو یاد کرتی ہے اور اپنے اعضاء و جوارح سے عام انسانیت کے کام آتی ہے، کیونکہ اسلام دین اور دنیا بیک وقت دونوں کے لئے ہے۔ ساری مخلوق اسلام کی نظر میں اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے، اس کے کام آنا، دُکھ میں ساتھ دینا، مصیبت دُور کرنا، پریشانی سے چھٹکارا دِلانا، امن و سکون اور راحت و آرام پہنچانا اور ان کی خوشحالی و سہولتوں کے لئے جستجو کرنا مسلمان کا فریضہ ہے ؎
یہ پہلا سبق ہے کتابِ ھدیٰ کا
کہ مخلوق ساری ہے کنبہ خدا کا
اگرچہ آج اہل اسلام میں مذہبیت و اسلامیت پر کماحقہٗ عمل نہ رہا، اسلامی تعلیمات پر عمل کا وہ جذبہ و حوصلہ نہ رہا، جو سابق میں پایا جاتا تھا۔ مادیت اور دنیاداری کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے، اس کے باوصف اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلمان عمومی طورپر کسی نہ کسی اعتبار سے مذہب سے قریب ہیں۔ اللہ، رسول، قرآن، شریعت، اسلامی شعائر کے لئے اپنی جان تک قربان کرنے تیار ہو جاتے ہیں۔ دیگر اقوام و ملل کے نزدیک مذہب صرف ایک رسم کا نام باقی رہ گیا ہے، لیکن اہل اسلام کے نزدیک ایمان، جان و مال، عزت و منصب، اقتدار و حشمت، ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے، لیکن مخلوق کے ساتھ جو تعلق اور معاملہ ہونا چاہئے اور انسانیت کے لئے جو خدمات ہونی چاہئے، اس میں مکمل ناکام و نامراد ہیں۔ اہل اسلام کے پاس دنیا والوں کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے، وہ انسانیت کو آرام پہنچانے میں ناکام ہیں، اس لئے کہ وہ علمی میدان میں سب سے پیچھے ہیں، ان کی سوچ بدل گئی، افکار تبدیل ہوگئے، دنیوی علوم و معارف سے بے بہرہ ہو گئے، اس کائنات میں خدا کی ودیعت کردہ اسرار و خزانوں سے بے خبر ہو گئے، اپنی عقل و شعور کو بروئے کار لانے سے عاجز ہو گئے، جب کہ اللہ تعالیٰ بار بار عقل و شعور کو جھنجھوڑ رہا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں، جو غور و فکر کرتے ہیں‘‘ (سورۃ الرعد) ’’یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ایسی قوم کے لئے جو عقل رکھتی ہیں‘‘ (سورۃ الرعد) ’’ان کے پاس دل ہے مگر سوچتے نہیں، ان کو آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں، ان کے پاس کان ہیں مگر وہ سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں‘‘۔ (سورۃ الاعراف)
نبی اکرم ﷺنے اہل اسلام کی تعلیم و تربیت کا بے مثال انتظام کیا اور یہ اصول دیا کہ ترقی پسند قوم ہی عالمی علم و فضل کی حقیقی وارث اور جانشین ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے تقریباً آٹھ سو سال تک کتاب و سنت کے ساتھ علم و فضل، سائنس و ٹکنالوجی اور مختلف فنون کے میدان میں مشرق و مغرب کے ان گنت خطوں کو روشن کیا۔ سائنس کا مشہور مؤرخ جارج سارٹن کہتا ہے کہ آٹھویں صدی عیسوی سے گیارہویں صدی عیسوی تک ساری دنیا کے علوم میں جو اضافے ہوئے، وہ عربوں اور مسلمانوں کی بدولت ہوئے۔
آسٹریلیا کے ایک عظیم دانشور ڈاکٹر ہنس کوچلر نے اعتراف کیا کہ ’’یہ ایک سچائی ہے کہ اسپین کی مسلم تہذیب نے ہی عہد وسطی میں یورپ کو جہالت سے چھٹکارا دلایا اور فکری و عملی ترقی کے راستے دکھلائے‘‘۔وہ قوم جو علم و آگہی کی نقیب تھی، عالمگیر تعلیمی بیداری کی محرک تھی، وہی قوم آج جہالت کی پے در پے تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ عصری علوم و فنون سے بے بہرہ ہے، مسابقتی دور میں مسابقت سے خوف زدہ ہے، تعلیمی معیار انتہائی پست ہے، جب کہ اسلامی دنیا پانچ صدیوں تک علم و فن اور سائنس و ٹکنالوجی کا مرکز بنی رہی، جس کا دارالسلطنت بغداد تھا۔ اس دور میں کوئی فن اور کوئی علم ایسا نہ تھا، جس کی ترقی و ترویج میں مسلمانوں نے غیر معمولی حصہ ادا نہ کیا ہو۔ کوئی ایجاد و اختراع اور تحقیق و دریافت ایسی نہ تھی، جس کا سہرا مسلمانوں کے سر نہ رہا ہو۔ پوری دنیا کے عالم، سائنس داں اور ماہرین ان سے شرف تلمذ حاصل کرتے۔ اس حقیقت کو مشہور اسکالر میکس مائر ہاف نے اس طرح تسلیم کیا ہے کہ ’’ڈوبتے ہوئے یونانی سورج کی روشنی کو لے کر اسلامی سائنس کا چاند اب چمکنے لگا اور اس نے یورپ کے عہد وسطی کی تاریک ترین رات کو روشن کردیا۔ یہ چاند بعد میں یورپ کی نشاۃ ثانیہ کا دن طلوع ہونے کے بعد ماند ہوگیا‘‘۔