مسلمانوں کو رجھانے بی جے پی کا منصوبہ

   

یہ ظالم زمانہ دکھائے گا کیا کیا
تری آنکھ بھی آج نم دیکھتے ہیں
مسلمانوں کو رجھانے بی جے پی کا منصوبہ
سی اے اے اور این آر سی کے علاوہ این پی آر پر عوام میں جاری غیض و غضب اور ناراضگی و احتجاج کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے ایسا لگتا ہے کہ پینترا بدلنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے اور اب کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی اس سلسلہ میں مسلمانوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریگی اور اس مسئلہ پر ان میں جو اندیشے ہیں ان کو دور کرنے کی کوشش کریگی ۔ یہ در اصل بی جے پی کی ایک اور سازش ہوسکتی ہے جس کے ذریعہ مسلمانوں کو سبز باغ دکھانے کی کوشش کی جائیگی اور ان دلالوں اور ایجنٹوں کی خدمات حاصل کی جائیں گی جو مسلمانوں کے درمیان رہتے ہوئے انہیں حکومت کے قریب کرنے کی کوشش کرینگے ۔ اپنے طور پر ان قوانین کے تعلق سے عوام میں جھوٹی تسلیاں دینے کی کوشش کرینگے ۔ یہ دلال اور ایجنٹ اپنے مفاد کیلئے ساری ملت کا سودا کرنے سے گریز نہیں کرینگے ۔ آر ایس ایس کے ٹکڑوں پر پلنے والے عناصر اپنے مفاد کیلئے ملت کو فروخت کرتے رہے ہیں اور آگے بھی کرتے رہیں گے ۔ مسلمانوں کو ایسے عناصر سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ۔ حکومت کی جانب سے چاہے کسی بھی طرح کی کوششیں کی جائیں مسلمانوں کو اپنی سیاسی بصیرت اور ہوش و عقل کو ٹھکانے پر رکھتے ہوئے کام کرنا ہوگا ۔ کسی بھی جال میں پھنسے بغیر ‘ عدم تشدد کے نظریہ کے تحت اپنے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنا ہوگا اور جس طرح سے کہا جا رہا ہے کہ عدم تعاون کی تحریک پھر عمل کرنا ہوگا ۔ ملک کے کروڑ ہا مسلمان اگر حکومت سے عدم تعاون کی تحریک چلاتے ہیں اور اس پر اٹل انداز میں عمل کیا جاتا ہے تو حکومت کو اپنے جذبات کا احساس دلایا جاسکتا ہے ۔ کچھ عناصر اگر دکھاوے کیلئے حکومت کی مخالفت کرتے ہوئے مسلمانوں سے ظاہری ہمدردی جتائیں اور شہریت کی دہائی دیتے ہوئے بالواسطہ طور پر حکومت کے ایجنڈہ پر عمل کروانے کی کوشش کریں تو ایسے عناصر سے ہوشیار رہنے اور ان کا پردہ فاش کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔ مسلمان اپنے اتحاد کے ذریعہ ایسا کرسکتے ہیں اور ایسا کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہی ہے ۔
نریندر مودی حکومت کی جانب سے یہ حکمت عملی تیار کی گئی ہے کہ اب مسلمانوں کو رجھانے کیلئے مختلف پروگرامس منعقد کئے جائیں۔ انہیں ایک نئے جال میں پھانسا جائے اور پھر اپنے ایجنڈہ کو پورا کیا جائے ۔ اس سلسلہ میں آر ایس ایس سے وابستہ ایجنٹوں کا استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ مسلمانوں سے رابطے کیلئے سارے ملک میں پروگرام منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ قومی سطح کی کانفرنس بھی منعقد کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے ۔ ملک کے مختلف شہروں میں اور بھی نوعیت کے پروگرامس منعقد کئے جاسکتے ہیں۔ لالچ دینے کیلئے بھی کچھ اعلانات ناممکن نہیںہیں ۔ یہ سارا کچھ محض اس لئے ہے کہ مسلمانوں کو کسی طرح این آر سی اور این پی آر کے جال میں پھانسا جائے ۔ جیسے ہی مسلمان دستاویزات جمع کروانے کیلئے تیار ہوجائیں اور اس کا سلسلہ شروع ہوجائے تو پھر حکومت شکنجہ کسنے سے گریز نہیں کریگی ۔ یہ حقیقت ہے کہ مرکزی حکومت کا صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا ہے ۔ حکومت کے مختلف گوشوں اور ذمہ داروں کی جانب سے بھی وقفہ وقفہ سے اس طرح کے بیانات دئے جاچکے ہیں اعلانات کئے جاچکے ہیں اور حکومت کے اصل ذمہ داروں نے اس طرح کے بیانات اور اعلانات کی تردید نہیں کی ہے اور نہ ہی ایسا کرنے والوں کی کوئی سرزنش کی گئی ہے ۔ اس طرح یہ واضح ہے کہ یہ بیانات اور اعلانات حکومت کی حکمت عملی ہی کا حصہ ہیں۔
ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی بصیرت اور فکر کو روشن رکھیں۔ اپنی صفوںمیں اتحاد کو یقینی بنائیں۔ جو آپسی اختلافات ہیں ان کو پس پشت ڈال کر اتفاقی نکات پر مل جل کر ایک جامع حکمت عملی کے تحت کام کریں۔ راست یا بالواسطہ طور پر حکومت کے ایجنڈہ کی تکمیل کرنے والوں کے جال میں نہ پھنسیں چاہے وہ سیاسی قائدین ہوں یا مذہبی لبادہ اوڑھنے والے ایجنٹ ہوں۔ سیاسی بصیرت اور صحیح فکر کے تحت کام کرتے ہوئے حکومت کے ایسے ایجنڈہ کو ناکام کیا جاسکتا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے ۔ ان کی شہریت پر قدغن لگانا ہے یا پھر ان کے حقوق کو تلف کرنا ہے اور اس ملک میں انہیں دوسرے درجہ کا شہری بنانا ہے ۔ احتجاج کا راستہ ترک نہیں کرنا چاہئے تاہم یہ احتجاج دستوری اور قانونی دائرہ میں کسی تشدد کے بغیر ہونا چاہئے ۔ سماج اور مسلمانوں کے تمام ذمہ دار گوشوں کو اس معاملہ میں اپنی اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کیلئے کمر کس لینے کی ضرورت ہے ۔