مسلمانوں کیخلاف ملک میں نفرت کا اظہار فیشن بن چکا ہے: نصیر الدین شاہ

,

   

انتخابات میں مذہب کا کھلے عام استعمال، الیکشن کمیشن تماشائی،کسی مسلم قائد کے بیان پر ہنگامہ کھڑا ہوتا

حیدرآباد۔/30 مئی، ( سیاست نیوز) بالی ووڈ اداکار اور سماجی مسائل پر بے باک رائے کا اظہار کرنے والے نصیر الدین شاہ اپنے حالیہ انٹرویو سے پھر ایک بار سُرخیوں میں آگئے ہیں۔ ایک انگریزی روز نامہ کو دیئے گئے انٹرویو میں نصیر الدین شاہ نے کہا کہ آج کے دور میں مسلمانوں کے خلاف نفرت فیشن بن گیا ہے۔ بالی ووڈ کو کئی ہٹ فلمیں دینے والے نصیر الدین شاہ نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے سنیما کے ذریعہ چالاکی کے ساتھ اس کا پرچار کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال پریشان کن ہے اور مسلمانوں سے نفرت کرنا آجکل فیشن بن چکا ہے۔ تعلیم یافتہ افراد میں بھی یہ فیشن پایا جاتا ہے۔ کچھ فلموں اور شوز کو مسلمانوں کے خلاف پروپگنڈہ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نصیر الدین شاہ نے کہا کہ حکومت نے چالاکی اور ہوشیاری سے ان فلموں کا استعمال کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اس طرح کی سرگرمیوں پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا جاتا۔ ملک میں سیاسی پارٹیاں کھلے عام انتخابی مہم میں مذہب کا استعمال کررہی ہیں اور الیکشن کمیشن کی خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ اگر کوئی مسلم لیڈر ’ اللہ اکبر‘ کے نام پر ووٹ مانگتا تو ابھی تک ہنگامہ ہوچکا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سیکولرازم اور ڈیموکریسی کے بارے میں بات کرتے ہیں، پھر کیوں ہر معاملہ میں مذہب کو شامل کیا جاتا ہے۔ ووٹ حاصل کرنے کیلئے مذہب کے استعمال پر الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی مسلم لیڈر ’ اللہ اکبر‘ کے نام پر ووٹ مانگ لے تو ملک میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوجائے گا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ مذہب کے نام پر سماج کو باٹنے کی کوششیں اور مذہبی کارڈ کا استعمال عنقریب ختم ہوگا۔ نصیرالدین شاہ نے کرناٹک میں وزیر اعظم کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا بٹن دباتے وقت مذہبی نعرہ لگانے کی اپیل کا حوالہ دیا اور کہا کہ اگر کوئی مسلمان یہ کہہ دے کہ ’ اللہ اکبر کہہ کر بٹن دباؤ‘ تو اس وقت الیکشن کمیشن اور ہر کوئی حرکت میں آجاتا۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب نصیر الدین شاہ نے ملک کے موجودہ حالات پر بے باک تبصرہ کیا ہو، اس سے قبل بھی وہ فرقہ پرست اور علحدگی پسند طاقتوں کے خلاف اظہار خیال کے ذریعہ زعفرانی تنظیموں کی تنقیدوں کا سامنا کرچکے ہیں۔ر